پیرزادہ قاسم
مَیں کب سے اپنی تلاش میں ہوں 'مِلا نہیں ہوں
سوال یہ ہے کہ مَیں کہِیں ہوں بھی ' یا نہیں ہوں ؟
یہ میرے ہونے سے اور نہ ہونے سے منکشِف ہے
کہ رزمِ ہستی میں کیا ہوں میں اور کیا نہیں ہوں ؟
میں شب نژادوں میں صبحِ فردا کی آرزو ہوں
میں اپنے امکاں میں روشنی ہوں' صبا نہیں ہوں
گلاب کی طرح عشق میرا مہک رہا ہے
مگر ابھی اس کی کشتِ دل میں کِھلا نہیں ہوں
نہ جانے کتنے خداؤں کے درمیاں ہوں، لیکن
ابھی میں اپنے ہی حال میں ہوں 'خدا نہیں ہوں
کبھی تو اقبال مند ہوگی مری محبّت
نہیں ہے امکاں کوئی مگر' مانتا نہیں ہوں
ہواؤں کی دست رس میں کب ہوں؟ جو بُجھ رہوں گا
میں استعارہ ہوں روشنی کا، دیا نہیں ہوں

Post a Comment