عارف خواجہ
دل کے قرطاس پہ تصویر ِ بُتاں کھینچی ہے
دیکھ نہ پائے جہاں کوئی ، وہاں کھینچی ہے
جرم ِ حق گوئی پہ ہر دور کے سلطانوں نے
کھال کھینچی ہے کبھی میری زباں کھینچی ہے
ایک اک کر کے کیا قتل وفا داروں کو
میرے سالار نے ؛ اب مجھ پہ کماں کھینچی ہے
مرشدی خیر ہو ! اِس بار عداوت کی لکیر 
وقتِ ظالم نے مرے تیرے میاں کھینچی ہے
داد دینے پہ مجبور عدو کہ ہم نے
اپنے سینے سے کچھ اِس طور سِناں کھینچی ہے
شور ِ محشر ہے بپا ، اب کے تری گلیوں میں
ایک بیمار نے زنجیر ِ گراں کھینچی ہے

Post a Comment