اوصاف شیخ
عشق میں ہار کے اب سارے ہنر بیٹھے ہیں
تجربہ ہم بھرے بازار میں کر بیٹھے ہیں
شائد اس بار تو رک جائے اٹھا لے ہم کو
ہم ترے راستے میں بار دگر بیٹھے ہیں
ڈھونڈنے نکلے تجھے خود کو گنوا کر آئے
تھام کے مٹھی میں اب گرد سفر بیٹھے ہیں
میں رہا ایک ستارے کے لیئے سرگرداں
کہکشائین ہیں یہاں شمس و قمر بیٹھے ہیں
ہم کہ خبروں کے تعاقب میں رہے سرگرداں 
اور اب یہ ہے کہ خود بن کے خبر بیٹھے ہیں
جس سے طوفان کی مانند وہ گزرا اوصاف
مل کے ہم آج بھی وہ راہگزر بیٹھے ہیں

Post a Comment