زبیر قیصر
اٹھا ہوں گر کے ، مرا حوصلہ کمال کا تھا
گو منتظریہ زمانہ مرے زوال کا تھا
قریب ِ مرگ کہیں راز قربتوں کا کُھلا
فریبِ چشم تھا، وہ واہمہ خیال کا تھا
تمام لوگ جو بولےتو میں بھی چیخ اٹھا
جواب جانے یہ کس شخص کے سوال کا تھا
گھٹا میں ،پھولوں میں ، پیڑوں میں ،چاند تاروں میں
جہان بھر میں ہی جلوہ ترے جمال کا تھا
یہ میرے دوست کسی طور میرے دوست نہیں 
عدو تھا ایک مگر کس قدر کمال کا تھا

1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں