ضیا حسین ضیا
آندھی کے جو ہاتھوں پہ تماشا ہے کوئی اور
اس بار مری لوحِ ارادہ ہے کوئی اور
وہ کارِ تخیل میں نظر کا نہیں بستر
اس شخص سے ملنے کا بھی ، سوچا ہے کوئی اور
ہے بادِ نمو چرخہِ باطن سے گریزاں
اس خانقہہِ جسم میں رہتا ہے کوئی
ترتیب سے تقدیر بدلتی نہیں اکثر 
کرتب پہ جو آسان ہے ، دھوکہ ہے کوئی اور
موجوں سے میں اثباتِ سفر بانٹ رہاہوں
ساحل ہے کوئِی اور سفینہ ہے کوئِی اور


ہم اپنے نسب پر کبھی جیتے کبھی ہارے
جو دل کی تمناہے ، بھروسہ ہے کوئِی اور
لو حسن_ تمنا کو لِئے جاتی ہےآندہی
اب طاق میں جلتا ہے تو جلتا ہےکوئی اور
بس ہم ہی ہیں دیوار کے گرنے کے اداکار
ملبے پہ جو بیٹھا ہے، وہ بیٹھا ہے کوئِی اور

Post a Comment