رضیہ سبحان
وقت کے روز و مہ و سال گزرتے جائیں
اے مرے دل،مرے ہمرازِ محبت جاگو !!
لذتِ خواب سے مخمور نگاہیں کھولو
مستیء حسن میں ڈوبی یہ ادائیں چھوڑو
چشم، ویراں سے ذرا اشکِ ندامت تو بہیں
گردشِ وقت جو روٹھی ہے مناؤ تو اُسے
کرچیاں دیدہء حیران کی چنتے جاؤ
گونج اس نغمہء ماضی کی بھی سنتے جاؤ
غیض و غم درد و ستم روگِ محبت سہہ لو
ظرف قائم ہی رہے،حرفِ زباں سے نہ کہو


جذبِ خوابیدہ کا پھر سوگ منانے اُٹھو
مرگِ اُلفت کا کوئی نوحہ سُنانے اُٹھو
تم نے سمجھا ہے کہ موت آئے گی، سو جاؤگے
یہ فقط وہم و گماں سوچ کی عیاری ہے
سچ تو کچھ اور ہے ۔اے دل مرے غافل نہ رہو
بعد از مرگ عبث سونے کی تیاری ہے
زندگی نیند یہاں، موت ہی بیداری ہے

Post a Comment