الیاس بابر اعوان
چلے تھے ساتھ میں ، میں‌ نے سفر زیادہ کیا
وہ ایک عمر جسے ہم نے آدھا آدھا کیا
پڑا ہُوا تھا میں سوئے ہوئے محل کے دُروں
پری نے ہاتھ لگایا تو شاہزادہ کیا
تمہاری آنکھیں بھی روشن ہیں شہر بھر کی طرح
سو میرے خوابوں سے تم نے بھی استفادہ کیا!
اس ایک ڈر سے کہ سورج نکلنے والا ہے
میں اک چراغ اٹھایا اسے لبادہ کیا
اور ایک اسم سے پیکر بنانے لگتا ہوں
ذرا سی خاک اٹھائی ذرا ارداہ کیا
پرندے جاتے ہیں پر لوٹ کر نہیں آتے
ندی کے بیچ میں یہ کس نے در کشادہ کیا
الیاس بابر اعوان

Post a Comment