لیاقت علی عاصم
پھر وہی بے دلی، پھر وہی معذرت
بس بہت ہو چکا، زندگی! معذرت
خود کلامی سے بھی روٹھ جاتی ہے تو
اب نہ بولوں گا اے خامشی، معذرت
داد بے داد میں جی نہیں لگ رہا
دوستو! شکریہ، شاعری! معذرت
اب یہ آنسو دوبارہ نہیں آئیں گے
اب نہ ہوگی مری واپسی، معذرت
بے خودی میں خدائی کا دعوی کیا
اے خدا درگزر، اے خودی، معذرت


تجھ سے گزری ہوئی زندگی مانگ لی
ربِّ امروز و فردا و دی ،معذرت
دھوپ ڈھل بھی چکی، سائے اٹھ بھی چکے
اب مرے یار کس بات کی معذرت
اک نظر اس نے دیکھا ہے عاصم، چلو
دور ہی سے سہی، ہو چکی معذرت

Post a Comment