(رپورٹ: ادریس آزاد)
  پروفیسر راشدہ ماہین ملک چیئر پرسن "کاروان ِ قلم انٹرنیشنل"کے گھرایک محفلِ مشاعرہ
منعقد   ہوئی ،یہ ایک یادگار نشست تھی۔ کاروان ِ قلم کے زیر اہتمام ہونے والے اس مشاعرہ کے مہمان ِ خصوصی باکمال شاعر احمد حسین مجاہد تھے اور صدارت ڈاکٹر احسان اکبر کی تھی۔

 شرکأ میں، سرمد شروش، جاوید بخاری، دلاور علی آزر، عرفان عثمان، جنید آزر، وحید ناشاد، طاہر حنفی، ڈاکٹر عابد سیال، رانا سعید دوشی، اور مشہور شاعر حسن عباس شامل تھے۔


اِس مختصر اور خوبصورت شعری نشست کی میزبانی کا شرف مجھے حاصل ہوا۔نشست کے اختتام پر راشدہ ماہین ملک نے مہمانوں کے لیے ضیافت کا اہتمام بھی کیا تھا۔
شعرأ کے کلام میں سے چیدہ چیدہ اشعار پیش ِ خدمت ہیں،
تمہارے پاس میرے کچھ فسانے
وہیں صوفے پہ رکھے رہ گئے ہیں
ادریس آزاد
نظر میں پھیلے ہوئےبحر بیکراں کی شکست
سفینہ آگیا ہے سطح پر محبت کا
راشدہ ماہین
خود اپنی راہ میں دیوار کردیا گیا ہوں
یہ کس عذاب سے دوچار کردیا گیا ہوں
جاوید بخاری
ہماری راہ میں کانٹے بچھائے تھے جس نے
ہم اُس کی راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں


عرفان عثمان
جو کچھ ملا حضور کے صدقے سے ہے ملا
اور جو نہیں ہے اُس کی ضرورت نہیں مجھے
دلاور علی آزر
میں جانتاہوں محبت نہیں مرے بس میں
مگر میں پھر بھی اسی اِک بھرم پہ زندہ ہوں
جنید آزر
کمال رات تھی کاجل میں بھیگتی ہوئی رات
غرور بہتا رہا اشک کی روانی میں
طاہر حنفی
عشق کے نام پہ خیرات بھی لے لیتے ہیں
یہ وہ صدقہ ہے جو سادات بھی لے لیتے ہیں

رانا سعید دوشی
صرف میرا ہے دمِ موجود کا یہ ذائقہ
رفتگاں سے مختلف، آئندگاں سے مختلف
کف ِ خزاں پہ کھلا مَیں اس اعتبار کے ساتھ
کہ ہر نمو کا تعلق نہیں بہار کے ساتھ
ڈاکٹر عابد سیال
بٹھا دیے گئے پہرے جنازہ گاہوں پر
سو ہم نے دفن کیے خواب شاہراہوں پر
کہیں ایسا نہ ہو تم چاند کی نظروں میں آجاؤ
نکلنا شام کے پہلے ستارے سے ذرا پہلے
حسن عباس
اُس حسن سے معاملہ کس آن میں ہوا
میں تو جواں ہی میر کے دیوان میں ہوا
احمد حسین مجاہد
چراغ کانپتی لو کا دکھائی دیتا ہے
گلی کے موڑ پہ یوں جیسے آج بھی کوئی ہے
ڈاکٹر احسان اکبر

Post a Comment