سلیم طاہر
بیچ بازار کے ، گٹھڑی نہیں کھولی جاتی 
ہر ترازو میں تو خوشبو نہین تولی جاتی
آپ کے کہنے سے پہلے ہی سمجھ جائے کوئی
یہ زباں وہ ہے ، جو سب سے نہیں بولی جاتی
اک تبسم کے عوض اس نے خریدا ہے مجھے
تم بتاؤ ، کہ کہاں تک ، مری بولی جاتی
میری خواہش تھی معانی کی گرہ کھولتے آپ
کاش ہوتا کہ ، مری بات نہ تولی جاتی
گر ، مرے علم میں ہوتا ، کہ خریدار ہیں آپ
اک دکاں آپ کے کوچے میں بھی کھولی جاتی

Post a Comment