عجیب چکّر کوئی چلا ہے
 جو شے جہاں سے اُٹھانا چاہی، اُٹھا نہ پائے
 جہاں جو رکھاّ، وہاں وہ رکھاّ نہیں رہا ہے
 جو لکھنا چاہا ، وہ لکھ نہ پائے  
جو لکھاّ، معنی بدل گیا ہے
  نصیب میں جو نہیں  تھا ، اس کی تلاش میں زندگی لگا دی 
جو ہاتھ میں تھا ، وہ بے خودی میں گنوا دیا ہے
  جو بات کہنی تھی اس کی ہمّت جٹا نہ پائے
 جو لب پہ آیا ، وہ حرف ہی غیر ہو گیا ہے
جو گیت ہم سننا چاہتے تھے
کسی نے اس کو کبھی نہ گایا ہماری خاطر
نہ تھی سماعت کو تاب جس کی
 قدم قدم پر وہی سنا ہے
 کسے سنائیں
،سفر ہے کیسا 
کسے دکھائیں 
تھکن کی جھولی میں کیا پڑا ہے
کسے  بتائیں
 ہماری آنکھوں میں کیا رُکا ہے
 جو دل کے اندر ٹپک رہا ہے
 بدن کے گنبد میں گونجتا ہے 
 ہمیں تو یہ بھی خبر نہیں ہے
 ہماری گٹھڑی میں کیا بندھا ہے 
جسے اُٹھائے  ہماری عمریں گزر گئی ہیں 
دعا ہے کوئی 
کہ بد دعا ہے

Post a Comment