عارف امام
بڑا دورانیہ تھا اور تماشہ مختصر سا تھا
مرا اتنا سا قِصّہ ہے کہ قِصّہ مختصر سا تھا
بس اک مٹی کی چادر تھی بدن کو جو میسر تھی
میں جب رخصت ہوا، میرا لبادہ مختصر سا تھا
زیادہ تھیں مری سانسیں، مگر اعمال تھوڑے تھے
بڑا تھا میرا گھر لیکن اثاثہ مختصر سا تھا
مرے خاکسترِ جاں سے ہَوا اٹھلا کے کہتی تھی
تجھے جس نے جلایا وہ شرارہ مختصر سا تھا
کسی مہتاب نے اپنے جلو میں لے لیا ورنہ
مرے برجِ مقدر کا ستارہ مختصر سا تھا
نظر اکب بار لپکی تھی، پلک اک بار جھپکی تھی
بڑی تفصیلی دعوت تھی، اشارہ مختصر سا تھا
قصیدہ لے کے میں دربار میں پہنچا تو کیا دیکھا
مرا طول سخن سارے کا سارا مختصر سا تھا
چھلک اٹّھا خجالت سے، سمٹ آیا ندامت سے
اٹھایا اس نے چلّو میں تو دریا مختصر سا تھا

Post a Comment