ثروت زہرا
میرے خیال کو 
جدید سیاسی رویوں کے 
جراثیم لگ گئے ہیں 
اور پچھلے سیشن میں 
میرا دماغ ، دل کے خلاف 
عدم اعتماد کی تحریک پیش کرچکا ہے 
اگلی کارروائی کے لئے دماغ 
نفی اور جمع کے اندھے اصول 
تلاش کررہا ہے 
اور دل محبتوں کی انوکھی دستاویز 
پیش کرنا چاہتا ہے 
مگر ہوا کی زبان کو ، پچھلے کئی برس سے 
خوشبوؤں کا ذائقہ لگ چکا ہے 
میرے تمام اعضاءبظاہر تو 
دل و دماغ میں سے کسی ایک کے لئے 
اپنے اپنے موقف کے دفاع میں 
دھواں دھار تقاریر کررہے ہیں 
مگر میں جانتی ہوں کہ دراصل 
یہ حمایت کے نام پر 
اپنے معیار کی بولیوں کا انتظار کررہے ہیں 
اور زندگی اسمبلی ہال سے باہر 
میڈیا کی ہر ایک جنبش پر 
خوف سے تھرتھر ارہی ہے 
اور اپنی پھٹی ہوئی جیب میں 
اعتماد کی پرچی تلاش کررہی ہے 
مگر زندگی اور اُس کی دھڑکنیں جانتی ہیں 
کہ مزید کسی الیکشن کے لئے 
ان کی پرچیاں ناکارہ ہوچکی ہیں 
اور صورت حال آہستہ آہستہ 
میرے کنٹرول سے باہر ہوتی جارہی ہے

Post a Comment