عارف امام
سیدھا سادہ ذرا الگ سا ہے
میرا لہجہ ذرا الگ سا ہے
جشنِ دیدار کا تبرّک ہے
ہاں یہ میوہ ذرا الگ سا ہے
دیکھتا ہوں درود پڑھتا ہوں
اس کا چہرہ ذرا الگ سا ہے
پی رہا ہوں وہی پرانی شراب
بس پیالہ ذرا الگ سا ہے

جو کی روٹی بھگوئی پانی میں
یہ نوالہ ذرا الگ سا ہے
رحم ہی رحم ہے کرم ہی کرم
میرا مولا ذرا الگ سا ہے
بات کرتا نہیں کسی سے کوئی
یہ محلہ ذرا الگ سا ہے
قبر میری بھی سب کے جیسی ہے
اس پہ سایہ ذرا الگ سا ہے
لکھتا رہتا ہے صرف ایک ہی بات
لکھنے والا ذرا الگ سا ہے

Post a Comment