اعجاز گل
ہوا عیاں نہ کبھی جو نہاں کے پیچھے ہے
کہ اصل واقعہ ہر داستاں کے پیچھے ہے
طویل مشق خسارے کی اس میں ہے درکار
اگرچہ سود میسّر زیاں کے پیچھے ہے
فرار کر نہیں پاتا ہوں رائگانی سے
کوئی لگا ہوا مجھ رائگاں کے پیچھے ہے
ڈراتا رہتا ہے آسیب ناگہانی کا
چھپا ہوا جو کسی ناگہاں کے پیچھے ہے
خَلا ملا ہے ابھی دوربین کو آگے
پتا چلا نہیں کیا آسماں کے پیچھے ہے
مرا دماغ ہے جس کے جواب سے قاصر
وہی سوال کہ ہر امتحاں کے پیچھے ہے
کہاں ٹھہرتا ہے جا کے یہ عمر کا دریا
سفینہ اپنا بھی آبِ رواں کے پیچھے ہے
عجب ہے حال مکینوں کی لا مکانی کا
ہجوم دوڑتا خالی مکاں کے پیچھے ہے
کبھی بہار گزرتی تھی درمیان کہیں
قیام اب تو خزاں کا خزاں کے پیچھے ہے

Post a Comment