انور زاہدی
ٹوٹا ہے آسمان سے تارہ تو دیکھنا
کس جان پہ گرے گا ستارہ تو دیکھنا
میں منظر افلاک میں کھویا رہا یونہی
تم دیکھنا زمیں کا نظارہ تو دیکھنا
کل کا پتہ نہیں ہے یہی بات ہے بھلی
گذرا ہے آج کیسے ہمارا تو دیکھنا
اُس نے کہا تھا جاتے ہوئے ایک مرتبہ
خالی مکاں کے در میں سہارا تو دیکھنا
ہوتا ہے دلفریب بہت خواب دیکھنا
تعبیر نہ بھی ہو تو اشارہ تو دیکھنا
ملتی ہے روز روز صبا اس طرح کہاں
مل جائے تمہیں گر وہ ستارہ تو دیکھنا
دریا ہے ایک عمر کا انور نہیں رُکا
کرتے ہوئے عبور کنارہ تو دیکھنا


Post a Comment