اوصاف شٰیخ
یہ نہیں کہ تیری طرف سفر نہیں کر رہا
یہ سفر میں راستہ دیکھ کر نہیں کر رہا
تیری فرقتوں میں وہ رنج دل نے اٹھائے ہیں
کہ علاج مجھ پہ کوئی اثر نہیں کر رہا
کوئی اور ہے تجھے جی رہا ہے جو زندگی
میری زندگی تجھے میں بسر نہیں کر رہا
تیرے بعد میرا جو حال ہے تجھے کیا خبر
تجھے جان بوجھ کے میں خبر نہیں کر رہا
تو قریب تھا تو عزیز تھے سبھی ضابطے
تیرے بعد کچھ بھی میں سوچ کر نہیں کر رہا

Post a Comment