رضیہ سبحان
بابِ علم و ہنر ،ڈھونڈتے ہی رہے
خُوب سے خُوب تر ،ڈھونڈتے ہی رہے
گردشِ روز و شب کے بھنور میں سدا
صرف اُسکی ڈگر ،ڈھونڈتے ہی رہے
زخم دے،اور زخموں پہ مرہم رکھے
ایسا اِک چارہ گر، ڈھونڈتے ہی رہے
رازِ دل تا دمِ مرگ قائم رہا
وہ عبث نامہ بر ،ڈھونڈتے ہی رہے
جسمیں فقدانِ خود اعتمادی رہا
راہ میں راہبر، ڈھونڈتے ہی رہے
وہ دیا ہو کہ جگنو کہ تارا کوئی
رات سے تا سحر ، ڈھونڈتے ہی رہے
تابہ حدِ نظر کوئی سایا نہ تھا
اِس شجر،اُس شجر ،ڈھونڈتے ہی رہے
کچھ تو چھو کے پلٹ آئے افلاک کو
اور کچھ بال و پر،ِ ڈھونڈتے ہی رہے
ہم کہ بیگانہ دستِ طلب سے رہے 
وہ دعا میں اثر ، ڈھونڈتے ہی رہے

Post a Comment