افراسیاب کامل
کہاں چلیں کہ دوستو ہر ایک گام رات ہے
کہیں پہ دام دن کا ہے کہیں پہ دام رات ہے
یہ زر نگار روشنی شراب کی شباب کی
یہ چاندنی سے کھیلتی سیاہ فام رات ہے
کشید دن کروں گا میں کسی افق سے پھر کہیں
مرے خیال کی تپش میں ہی تمام رات ہے
یہ کون پی گیا ہے سب شرابِ زر میں چاندنی
یہ کون مے کدے میں ہے یہ کس کا جام رات ہے
ابھی سے نیند آ گئی چراغ شب تجھے مگر
ابھی تو ایک ان کہی مری تمام رات ہے
نہ فکر نیند کی ہمیں نہ جاگنے کی آرزو
عجب مقام دن یہاں عجب مقام رات ہے
دبیز تہہ دھویں کی ہے یہاں پہ دن کے وقت بھی
میں اس دیار میں رہا جہاں مدام رات ہے
یہ چاندنی ہے فرش پر کسی حسیں کے پاوں کی
غزل چھڑی ہوئی ہے اور یہ ہم کلام رات ہے
زمین دوز دل جہاں کہ روزنِ حواس تک
اسی کا نام دن یہاں اسی کا نام رات ہے

Post a Comment