رحمان فارس
آنکھ کے شیشے پہ کیسا نقشِ حیرانی لگا
اُس کا آنچل سرمئی تھا ، اور مجھے دھانی لگا
حسنِ کامل کو نہ سہہ پائے کئی کم چشم لوگ
چودھویں کے چاند پر الزامِ عریانی لگا
شام ہوتے ہی تجھے تجھ سے چرا لے جاوں گا 
لاکھ اپنے آپ پر قفلِ نگہبانی لگا
شہر کی گلیوں میں پھیلا تھا کوئی بے نام خوف 
سایۂ جاناں بھی مجھ کو دشمنِ جانی لگا
اچھے وقتوں میں کہا تھا اچھی آنکھوں پر جو شعر 
آج یونہی سامنے آیا تو بے معنی لگا
دھیان کے آنگن میں شب بھر وہ اُداسی تھی کہ بس 
چاند بھی منجملۂ اسبابِ ویرانی لگا
تیری خوشبو آئی تو سب خوشبوئیں گھل مل گئیں 
موتیے کا پھول مجھ کو رات کی رانی لگا
بعد میں کیوں بیچ ڈالا سوت کی اٹی کے مول ؟
پہلے پہلے تو اُسے مَیں یوسفِ ثانی لگا
یوں گلے میرے لگے وہ آیتوں سے نین نقش 
جیسے سینے سے کوئی تعویذِ قرآنی لگا
تُو نے تو ھنستے ہوئے رد کردیا تھا میرا عشق 
تیری پیشانی پہ کیوں داغِ پشیمانی لگا ؟
پھر سُنی آواز کلُ من علیھا فان کی
پہلےپہلے حسن تیرا مجھ کو لافانی لگا
فارسا ! مرجھا نہ جائے یار وہ نخلِ گلاب
پیاس پودے کو لگی ہے ، جا اُسے پانی لگا 

Post a Comment