رپورٹ :ریاض شاہدؔ۔ منامہ/بحرین
ہماری ادبی تاریخ اور روایت صدیوں پر محیط ہے، معاشرے کی عکاسی ہر دور میں اہلِ قلم نے اپنے اپنے طریقے سے بہت عمدگی سے کی ہے، نثر ہو یا شاعری، ادیبوں اور شاعروں نے معاشرے کی خوبیوں، برائیاں اور سچائیاں قلمبند کر کے معاشرے کے زخموں پر مرہم رکھنے کے ساتھ ساتھ حاکمِ وقت کو آگاہ کیا ہے اور نشاندہی کرنے کے علاوہ ان کے اصلاحی افعال کی تعریف کرنے کے ساتھ غلطیوں پر سرزنش بھی کی ہے۔ شاعری ادب میں بہت حساس اور لطیف صنف ہے۔ شاعر آنے والے وقت کو محسوس کرتے ہوئے شعر تخلیق کرکے عوام الناس کو آگہی کا درس دیتا ہے۔

 شعرو سخن ہماری تہذیبی اور ثقافتی روایات کا ایک اہم جز وہے جسے ہمارے شعرائے کرام احسن طریقے سے ہمیشہ نبھا تے رہے ہیں۔علاوہ ازیں ماضی حال اورمستقبل میں رو پذیر ہونے والے حالات و واقعات کے مدّوجزر کو بیان کرنے کا سب سے میٹھا اور شفّاف جھرنا شاعری ہے۔اور شاعری چونکہ ایک آزاد عمرانی اور ارتقائی سفر کا نام ہے۔اور اسی ارتقائی سفر کے تسلسل کے لئے  گز شتہ دنوں پاکستان کلب بحرین نے ایک عید ملن مشاعرے کا اہتمام کیا جس میں منطقہ شرقیہ سعودیہ میں مقیم منفرد لہجے کے استاد شاعر ”اقبال احمد قمر“ کے مجموعہ کلام ”شام کی زد میں“ کی تقریبِ پذیرائی کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔


 تقریب کا باقاعدہ آغاز قاری سمیع الرحمن نے تلاوتِ کلام پاک سے کیا نعتِ رسولِ مقبول بحرین کے خوبصورت اورمترنم نعت خواں جناب سجاد حسن نے پیش کی، نظامت کے فرائض جناب اقبال طارقؔ نے ادا کئے، چیئرمین پاکستان کلب جناب محمد زاہد شیخ نے آنے والے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا پاکستان کلب بحرین ہمیشہ سے پاکستان کیمونٹی کا مرکز رہا ہے اور ہر قسم کی تقریبات کے لئے اس کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ صدرِ تقریب جناب افتخار احمد لون سابقہ چیئرمین پاکستان کلب تھے، مہمانِ خصوصی جناب زاہد شیخ چیئرمین پاکستان کلب بحرین اور مہمانِ اعزاز جناب شاہدمحمود رکن ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان کلب اور مرزا عبدالغفوربحرین کے ادب پرور دوست تھے۔ کتا ب کی تقریبِ رونمائی صدرِ ذی شان نے کی۔ منطقہ شرقیہ سعودی عرب کے ہی معروف شاعر، ادیب جناب محمد ایوب صابر کا لکھا ہوا مقالہ راقم الحروف نے پڑھا، محررِ مقالہ اقبال احمد قمر کے ربع صدی کے فنی سفر کا  حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اقبال احمد قمر نے قافیہ اور ردیف کا پیٹ بھرنے کے لئے شاعری نہیں کی بلکہ معنویت اور مقصدیت سے مزین الفاظ کو قرطاس کی زینت بنایا ہے۔ ان کا بے ساختہ پن قاری کو اپنا اسیر کرلیتا ہے اور اقبال احمد قمر امید کا استعارہ ہے جو اپنے شوق کو زادِ سفر کر کے جستجو کی پگڈنڈی پر نکل پڑتا ہے۔تقریبِ رسم ِ اجراء کے بعد باقاعدہ مشاعرے کا آغازہوا اور تقریب میں شریک تمام شعراء نے خوب داد سمیٹی قارئین اوو محبِّ ادب کے ذوق کے لئے مشاعرے میں شریک شعراء کے منتخب اشعار نذرِ قارئین ہیں:۔
اسد اقبال
وہ سبب مسکرانے کا اب پوچھتاہے
دل میں غم کو چھپانے کا اب پوچھتا ہے
احمد شکیل
بچھڑکر تیرے دامن سے کبھی جو دور ہو جاؤں 
مرے دل میں سما جانا میں کوہِ طُور ہو جاوں 
مجھے وہ شے نہیں دینا مرے مالک جسے پا کر
میں اک انساں ہوں اور انسانیت سے دور ہوجاؤں 
حمید حسرت لاہوری
آؤ اج اک وعدہ کرئیے حاضر جان ایمان نوں 
اسی پاکستانی پیار کراں گے پیارے پاکستان نوں 
انشاء اللہ رزق حلال کماواں گے
رشوت جیا حرام ناں کھاواں گے
رب دوزخاں اندر ساڑنا رشوت خور انسان نوں 
ریاض شاہدؔ
تقدیسِ روایات کنندہ ہیں جہاں پر
اس باب کے صفحاب سبھی کاٹ رہے ہیں 
یہ نسلی تفرقہ یہ زبانوں کا تفرقہ
ہم کس کی عنایات سبھی کاٹ رہے ہیں 
اقبال طارقؔ
جس روز سے یہ دستِ ہنر سُوکھ رہے ہیں 
ہم لوگ سرِ راہ گزر دیکھ رہے ہیں 
آزاد پرندوں سا وتیرہ تھا مگر آج
اس دھوپ کے بازار میں پَر سُوکھ رہے ہیں 
رُخسار ناظم آبادی
کوئی اس سے پُوچھے جو گھر کا بڑا ہے
وہ کتنے محاذوں پہ تنہا کھڑا ہے
بزرگوں کا اگر قائم رہے تو 
برائے نام ہی سایہ بہت ہے 
سرفراز حسین ضیاء
قطرہ قطرہ بچا لیا اُس نے
اپنے خوابوں کو پا لیا اُس نے 
باندھ کر اپنے پیٹ پر پتھر 
ایک بیٹا پڑھا لیا اُس نے 
سید اقبال طالب احمدؔ
شاید آجائیں گے وہ شام کے ڈھلتے ڈھلتے
جل چکی ہوگی انا دھوپ میں چلتے چلتے
تجھ سے بچھڑے تھے مگر رشتہ کہاں توڑا تھا
تھک گئے اب تو غمِ ہجر میں جلتے جلتے
سہیل ثاقبؔ
اپنی آنکھوں میں کوئی خواب سجا کر دیکھو
زندگی سامنے ہے سر تو اُٹھا کر دیکھو
کیا خبر تجھ کو مصور پہ گزرتی کیا ہے
اپنی تصویر کبھی خود بھی بنا کر دیکھو
آخر میں صاحبِ جشن کو دعوت کلام دی گئی۔ کلام سنانے سے پیشتر جناب اقبال احمد قمر نے انتظامیہ پاکستان کلب بحرین حاضرین محفل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اردو کی ترویج و ترقی کے لئے ادبی محفلوں کا ہونا اشد ضروری ہے اور ارضِ بحرین اردو کی نئے بستیوں میں ایک خوبصورت اضافہ ہے کہ جہاں پے در پے ادبی محافل کا انعقاد ہوتا ہے اور یہ زبانِ اردو اور ادب کے لئے ایک خوش آئند بات ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی خاطر جناب اقبال احمد قمر کا نمونہِ کلام حاضر ہے:۔
میں لکھ رہا ہوں محبت کی داستان مگر
یہ کام اتنا بڑا ہے کہ زندگی کم ہے
وہ اک ہجوم جو مجھ کو اُٹھائے پھرتا تھا
نظر نہ آیا مفادات ختم ہونے پر 
وقتِ رخصت وہ گلے لگ کے مرے یوں رویا
جیسے گرتی ہوئی دیوار پہ دیوار گرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرا سفر مری قسمت ہے انتخاب نہیں 
میں تھک چکا ہوں مگر بیٹھنے کی تاب نہیں 
ہو رہی ہے جو خلاؤں پہ اجاراہ داری
ماہ و انجم مرے نیلام بھی ہوسکتے ہیں 
دل کی حالت پہ اگر پردہ بھی ڈالے کوئی
دل یہ چاہے کہ وہی بات اچھالے کوئی
زمین سخت سہی خواہشِ نمو بھی تو ہو
کسی میں سر کو اٹھانے کی آرزو بھی تو ہو
سفر بھی مرحلہِ شوق بننے لگتا ہے
کچھ اپنی ذات کے بارے میں جستجو بھی تو ہو



2 تبصرے

  1. یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. ما شاء اللہ ۔۔ اللہ کریم برکات سے نوازے۔ محمد ایوب صابر نے یقیناً ایک عمدہ مضمون لکھا ہو گا۔ اقبال احمد قمر بجا طور پر اس اعزاز کے مستحق ہیں۔ ریاض شاہد صاحب کی لکھی ہوئی روداد بہت بھرپور ہے۔ خوش رہئے۔

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں