اقبال خورشید
”میں تیرے کاموں کو جانتا ہوں کہ تو زندہ کہلاتا ہے، اور ہے مردہ!“
(یوحنا کا مکاشفہ،3/1۔ نیا عہد نامہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوائیں سیاہی کے رتھ پر سوار تھیں۔ اُن میں بارود کی بُو تھی۔ خون کی مہک تھی کہ وہ مشرق سے آتی تھیں۔ سمندر کی اُور سے۔ جہاں ایک مزار تھا، جس کے زینے نے آج صبح قربانی وصول کی تھی۔ 
ایک دھماکا، اور بیس انسان ٹکڑوں میں بٹ گئے۔ مٹ گئے۔ پر... وہ اب بھی وہیں تھے۔ ننھے مُنے چیتھڑوں کی صورت، زینے کے کونوں کھدروں میں۔ صفائی کے باوجود موجود۔ بُو پیدا کرتے ہوئے، جسے بارود کی تیزابی مہک مہمیز کرتی۔ 


سورج چھپتے ہی تاریکی نے زور مارا۔ ہواؤں نے انگڑائی لی۔ مزار کے زینے پر اتریں۔ خون اور بارود کو ساتھ لیا۔ اور شہر کی جانب بڑھیں۔ ایسے شہر کی جانب، جسے آسمانی دیوتا شہرخموشاں کہا کرتے۔ اور زمینی دیوتا اجالوں کا شہر!
یہ قبل از تاریخ کی ایک رات کا ذکر ہے، جس کا جنم مابعد نوگیارہ کے عہد میں ہوا تھا۔
ہواؤں کے رستے میں شہر کی بُلندترین عمارت پڑتی تھی، جس کی اوپری منزل پر ٹی وی چینل کا دفتر تھا، جس کے اسٹوڈیو کی بیرونی دیوار دبیز شیشے کی تھی، جس سے شہر، سیاہ سڑکیں، کچی بستیاں، رینگتے انسان اور یاسیت نگلتا سمندر نظر آتا تھا۔
رُل چکی تہذیب کے نظارے کے لیے وہ بہترین مقام تھا۔ بس، وہاں سے آسمان کا اوپری درجہ نظر نہیں آتا تھا۔
جس سمے بوجھل ہواؤں نے اسٹوڈیو کے شیشے پر پہلی دستک دی، ٹاک شو کا میزبان، پروڈیوسر سے اشارہ پا کر پروگرام شروع کرنے کو تھا۔
”السلام علیکم ناظرین۔ میں ہوں آپ کا میزبان...“
وہ اپنا نام بتاتا ہے، ایک خاص نوع کے فخر کے ساتھ، جو بے جا معلوم ہوتا ہے۔
”... اور میرے ساتھ اسٹوڈیو میں تشریف رکھتے ہیں ملک کے نام وَر کالم نگار اور دانش وَر...“
میزبان بڑے احترام سے اُس کالم نگار کا نام لیتا ہے، جسے ٹھیک آدھے گھنٹے قبل پروڈیوسر کے سامنے اُس نے —  اپنے مخصوص انداز میں، سگریٹ پھونکتے ہوئے —  خودساختہ دانش وَر کہہ کر پکارا تھا۔ 
جس پَل وہ کالم نگار کا تعارف کروا رہا تھا، پروڈیوسر دل ہی دل میں مسکراتا ہے۔ میزبان کے پروفیشنل ازم کی، جسے وہ اُس کی کمینگی پر محمول کرتا ہے، داد دیتا ہے۔
اب میزبان دارالحکومت میں بیٹھے مہمان کا تعارف کرواتا ہے۔
”ہمیں اسلام آباد اسٹوڈیو سے جوائن کیا ہے معروف سماجی کارکن...“
میزبان، سماجی کارکن کا نام لیتا ہے۔ جو ایک سیکولر شخص کی شہرت رکھتا ہے۔ جس کا جھکاؤ کُلی طور پر تو بائیں بازو کی جانب نہیں، مگر یہ طے ہے کہ دائیں بازو کی جانب بھی نہیں ہے۔
سماجی کارکن کا نام سن کر کالم نگار منہ بناتا ہے۔
”... کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ روشن خیال حلقوں کے ترجمان تصور کیے...“ میزبان اُس شخص کا تعارف، ایک خاص نوع کی سنجیدگی سے کرواتا ہے، جس کی بابت وہ اور پروڈیوسر دونوں ہی متفق ہیں کہ وہ ایسا سرخ گھوڑا ہے، جو برسوں سے سبز گھاس پر پل رہا ہے۔
”جی سر...“ میزبان اسٹوڈیو میں بیٹھے مطمئن، پُراعتماد اور ایک حد تک پُررعونت کالم نگار کی جانب مڑتا ہے۔ ”... میں آپ سے گفت گو کا آغاز کروں گا۔ ہم نئے سال میں داخل ہوچکے ہیں۔ اور سال کے پہلے ہی دن دہشت گردی کا ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ...“
کیمرا اسٹوڈیو میں بیٹھے کالم نگار پر آتا ہے، جو سنجیدہ معلوم ہوتا ہے۔ پروڈیوسر اپنے اسسٹنٹ کو کوفی لانے کا اشارہ کرتا ہے۔ اسسٹنٹ خوشامدی مسکراتا کے ساتھ اٹھتا ہے۔ دل میں گالی دیتا ہے۔ اور کینٹین کی جانب چل پڑتا ہے۔
”بیس افراد کی ہلاکت...“ میزبان بات جاری رکھتا ہے۔ ”دہشت گردی، جو آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں، نئے سال میں ہمیں اِس عفریت سے نجات مل سکے گی؟“
کالم نگار گہرا سانس لیتا ہے۔ ”یہ بہت ہی افسوس ناک واقعہ ہے۔ انسانی جانوں کا ضیاع ایک بڑا المیہ ہے۔ اِس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔“ وہ دُکھی معلوم ہوتا ہے۔ ”... لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم مسئلے کی تہہ تک جائیں۔ اور چُوں کہ میں اِس معاملے کے تاریخی، سیاسی و سماجی پس منظر سے واقف ہوں، اِس لیے میں آپ کی اِس بات سے متفق نہیں کہ...“ یہاں، ٹھیک اِس لمحے، کالم نگار کھنکھار کر گلا صاف کرتا ہے۔ اور جب کبھی وہ اپنے تئیں کوئی اہم بات کرنے والا ہوتا ہے، وہ ایسا ہی کرتا ہے۔
نہ جانے کیوں، ٹھیک اُس لمحے، میزبان کی رگ ظرافت پھڑک اٹھتی ہے۔ وہ کھنکھار کے بعد جنم لینے والا بلغم زدہ وقفہ اُچک لیتا ہے۔ ”کس بات سے متفق نہیں جناب؟ کہ آج سال کا پہلا دن ہے؟“
کالم نگار بھونچکا رہ جاتا ہے۔ (یا بھونچکا رہ جانے کی اداکاری کرتا ہے!) میزبان لطف اندوز ہوتا ہے۔ کیمرا مین کی ہنسی سنائی دیتی ہے۔
”کیا بکواس کر رہے ہو!“ اگلے ہی لمحے کان میں گُھسے آلے میں میزبان کو پروڈیوسر کی دہاڑ سنائی دیتی ہے۔ وہ سنبھل جاتا ہے۔
”جی آپ کچھ فرما رہے تھے؟“ میزبان، مہمان سے پوچھتا ہے، بہ ظاہر پوری سنجیدگی سے، مگر دل میں اُسے خودساختہ دانش وَر پکارتے ہوئے۔
”میں یہ کہہ رہا تھا کہ...“ کالم نگار سنبھل جاتا ہے کہ وہ بھی پروفیشنل ہے۔ ”میں آپ کی اِس بات سے متفق نہیں کہ دہشت گردی پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہے۔“
”بے شک آپ دُرست فرما رہے ہیں۔“ میزبان فوراً کہتا ہے کہ وہ ڈیل کارنیگی کو پڑھ چکا ہے۔ ”...عوام کو اِس وقت گرانی جیسے گمبھیر مسئلے کا سامنا ہے، جو ایک بڑا مسئلہ ہے، مگر میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ...“
”یہ بات بھی دُرست نہیں۔“ کالم نگار کے سفید چہرے پر اعتماد کی سرخی دمکتی ہے۔
”بھلا کون سی بات؟“ شاید میزبان پھڑکتی ہوئی رگ ظرافت کے تحت کہہ جاتا، پر اُس نے خود کو باز رکھا۔ چہرہ سوالیہ بنا لیا۔ کہا،”کیا آپ کا اشارہ شرح ناخواندگی کی جانب ہے؟“
اسسٹنٹ اب تک نہیں پلٹا تھا۔ پروڈیوسر غصے میں پہلو بدلتا ہے۔ اُس کے موبائل کی اسکرین جھلملاتی ہے۔ ایک ایس ایم ایس:
”کس الو کی دم کو پروگرام میں بلوالیا یار!“
نمبر اسلام آباد میں بیٹھے سماجی کارکن کا ہوتا ہے۔
ٹھیک اُس لمحے بدبودار ہوا کا جھکڑ اسٹوڈیو کی دیوار سے ٹکراتا ہے۔ آواز پیدا کرتا ہے۔
”بے شک دہشت گردی، مہنگائی، ناخواندگی بڑے مسائل ہیں، مگر...“ کالم نگار کے چہرے پر جوش سمٹ آیا۔ وہ مُکا لہراتا ہے۔ تقریر کرنا چاہتا ہے۔
”...جناب، میرے سامنے پانچ ہزار سالہ انسانی تاریخ کھلی پڑی ہے... میں آپ کو بتاتا ہوں ... غیرت مند قوموں پر اِس سے بڑے مصائب آئے، مگر اُنھوں نے قومی حمیت کے ذریعے ان پر فتح حاصل کی۔ یہ مسائل تو کچھ بھی۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ...“
”کیا گھوڑے پر ظلم ہورہا ہے؟“ میزبان کے کان میں پُراسرار سرگوشی ہوتی ہے۔ وہ چونک کر پروڈیوسر کی جانب دیکھتا ہے۔ وہ ماحول سے لاتعلق، سرجھکائے موبائل کے ساتھ مصروف ہوتا ہے۔ پھر اُس کی نظر کیمرے کے ساتھ کھڑی نٹ کھٹ کوآرڈی نیٹر پر پڑتی ہے، جس نے گلابی رنگ کا چُست سوٹ زیب تن کر رکھا ہے۔ وہ گھوڑے کو بھول کر دل ہی دل میں سیٹی بجاتا ہے۔ اور ایک سچے اینکر پرسن کی طرح اگلے ہی پل کالم نگار کی جانب متوجہ ہوجاتا ہے۔
”کیا یہ سیاسی نظام...“ کالم نگار کہہ رہا تھا۔
میزبان نے فوراً بات کاٹ دی۔ ”جناب، بے شک کم زور جمہوری نظام بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اِس بات سے انکار نہیں، مگر...“
”نہیں نہیں۔“ کالم نگار نے بات اچک لی۔ دائیں بائیں گردن ہلاتے ہوئے میزبان کی جہالت پر تاسف کا اظہار کیا۔ ایک لمحہ کا توقوف کیا۔ دبیز شیشے سے ٹکراتے جھکڑ کو نظر انداز کر دیا، اور کہا۔
”کیا گھوڑے پر ظلم ہورہا ہے؟“ پُراسرار سرگوشی۔ میزبان پھر چونکا۔ پروڈیوسر کی جانب دیکھا۔ نہیں، کچھ نہیں۔ خاموشی!
کالم نگار: ”... جمہوری نظام تو فساد کی جڑ ہے۔ یہ مغربی قوتوں کا مسلط کردہ ہے۔ اور آپ لکھ لیں ...“ (وہ جوش میں تھا) ”یہ بہت جلد سمندر برد ہوجائے گا۔“
میزبان اکتانے لگا۔ کوآرڈی نیٹر مسکرانے لگی۔ پروڈیوسر کسمسانے لگا۔
”تو آپ ہی بتا دیں کہ ہمارا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟“ میزبان کے لہجے میں کسی منہ بسورتے بچے سی ناراضی ہونی چاہیے تھی، مگر نہیں تھی۔ پروفیشنل ازم!
”میرے سامنے دس ہزار سالہ انسانی تاریخ کی کتاب کھلی پڑی ہے...“ کالم نگار کو شاید اِسی پل کا انتظار تھا۔ 
کہیں ہلکی سے ”ہی ہی“ ہوتی ہے۔
کالم نگار: ”... قوموں کے عروج و زوال کا پورا قصّہ میرے سامنے ہے۔ اور ہر وہ قوم، جو زوال پذیر ہوئی، اُسے ایک ہی مسئلے کا سامنا تھا۔ فقط ایک۔ فحاشی اور بے حیائی۔“
میزبان پروفیشنل ہونے کے باوجود خود کو حیران ہونے سے باز نہیں رکھا سکا۔ ”فحاشی؟“
پروڈیوسر نے اُس کے چہرے پر پھیلا تحیر نوٹ کر لیا۔ اور گلابی سوٹ کو، ایک خاص نوع کی محبت کے ساتھ، مخاطب کیا۔ ”میں نے اِس نے بارہا کہا ہے کہ بھائی کالم ولم پڑھ لیا کر۔ مگر اِسے تو فیس بک سے فرصت نہیں ملتی۔ آج ہی کے کالم میں موصوف نے (اشارہ مہمان کی جانب ہے) فحاشی کا راگ الاپا ہے۔ اور اب وہی کالم پڑھ دے گا۔“
جواباً گلابی سوٹ مسکرایا۔
کالم نگار، کالم پڑھنا شروع کرتا ہے۔ ”جی ہاں، فحاشی۔ یہ ایک وبا ہے۔ جہاں پھیل جائے، وہاں قدرتی آفات آتی ہیں، زلزلے اور طوفان آتے ہیں ...“ وہ مبلغ معلوم ہوتا تھا۔ ”... اِسی بیماری نے یونانیوں کو برباد کیا۔ اِس عفریت نے رومی سلطنت کو نیست و نابود کردیا۔ بازنطینی، چینی قومیں اِس ناسور کی وجہ سے تباہی سے ہم کنار ہوئیں۔ اِسی نے امریکا کو تباہ کیا، اور...“
میزبان برداشت نہیں کرسکا کہ اُس نے ایک امریکی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی کہ اُس کی سابق گرل فرینڈ ایک امریکی تھی، جس سے جُڑی گرم راتوں کی یاد اُسے آج بھی بے کل رکھتی تھی۔ ”مگر جناب امریکا کہاں تباہ ہوا ہے؟“
کہیں، کونے میں پُراسرار سی ہی ہی...
”یہ تباہی ہی تو ہے۔“ کالم نگار، مبلغ، خودساختہ دانش وَر وغیرہ وغیرہ کی آواز: ”یہ کترینا اور سینڈی طوفان... گرتی ہوئی معیشت۔ یہ سب بے راہ روی اور فحاشی ہی کا نتیجہ ہے میرے بھائی۔ وہاں ہر منٹ میں ایک ریپ ہوتا ہے... قتل ہوتا ہے۔ خاندانی نظام ٹوٹ گیا ہے... بچوں نے والدین کو گھروں سے نکال دیا ہے۔ اب امریکا دہشت گردی کے خلاف شروع کی جانے والے جنگ میں پھنس گیا ہے۔ یومیہ کروڑوں ڈالر ضایع ہورہے ہیں ... فوجیوں کی ہلاکتیں ہورہی... میرا ال ل ل ل...“
آسمان کے نچلے درجے میں بیٹھا تباہی کا دیوتا اپنے بیٹے کو ”مسڈ کال“ مارتا ہے۔ اُس کے پاس بیلنس نہیں ہے۔
”...مگر جناب، فوجیوں کی ہلاکتوں کا فحاشی سے کیا تعلق؟“ میزبان، جو کالم نگار کے لیکچر کے دوران کوآرڈی نیٹر کو آنکھ مار چکا ہے، سوال اٹھتا ہے۔
”یہی تو آپ سمجھ نہیں رہے۔“ کالم نگار بھی آخر کالم نگار ہے۔ ”میرے سامنے پوری انسانی تاریخ کھلی پڑی ہے۔ جب فحاشی پھیلتی ہوئی، تو ایسے ہی نتائج سامنے آتے ہیں۔ اب دیکھیں، ہمارے ہاں بھی زلزلے آرہے ہیں ...“ ہوا کے تیز جھکڑ نے سر پٹخا۔ ”سیلاب آرہے ہیں ...“ ایک اور جھکڑ۔ ”روزانہ لاشیں گر رہی ہیں ...“
”مگر یہ تو ایک اسلامی ملک ہے!“ میزبان نے احتجاج کیا، گو دل سے نہیں کیا۔
”ٹارگٹ کلنگ...“ کالم نگار نے بات اَن سنی کر دی۔ ”مہنگائی... بے روزگاری... کرپشن...“ 
اسٹوڈیو میں لگے مائیک سے ”ہی ہی“ نما آواز گونجی۔ جھکڑ دھڑ سے شیشے پر پھیل گیا۔ نیستی نے ہچکی لی۔
اسسٹنٹ ابھی تک نہیں لوٹا تھا۔ پروڈیوسر غصے کے زیر اثر، یا لمحے کی پُراسراریت کے زیر اثر، خود ہی کینٹین کی جانب چل دیتا ہے۔ 
”پچاس سیکنڈ بعد بریک لینا ہے۔“ اس نے جاتے ہوئے کوآرڈی نیٹر سے کہا، جس کی آنکھوں میں خواہ مخواہ نشہ تیر رہا تھا۔
”نہیں ایک منٹ...“ میزبان غصے میں معلوم ہوتا تھا۔ ”آپ کہہ رہے ہیں کہ گھوڑے پر ظلم . . . میرا مطلب ہے، آپ کے نزدیک ملک کا بنیادی مسئلہ فحاشی ہے؟“
”سو فی صد!“ کالم نگار نے کہا۔ ”اِسی فحاشی اور بے حیائی کی وجہ سے قومیں برباد ہوئیں، اور اگر اسے ابھی نہیں روکا گیا، تو میرا ال ل ل ل...“
”ہی ہی“ جیسی آواز پھر سنائی دی۔ میزبان کو یک دم اسلام آباد اسٹوڈیو یاد آیا۔ اُس نے کالم نگار کی بات کاٹ دی۔ 
”ٹھیک ہے۔ میں یہی سوال اسلام آباد میں بیٹھے اپنے مہمان سے کرنا چاہوں گا۔ جناب، کیا آپ بھی محترم... (کالم نگار کا نام)... کی طرح سمجھتے ہیں کہ فحاشی ملک کا بنیادی مسئلہ ہے؟“
کوآرڈی نیٹر بھول جاتی ہے کہ بریک پر جانا ہے۔
اسٹوڈیو میں لگے مائیک سے معروف سماجی کارکن (سبز گھاس پر پلنے والا سرخ گھوڑا) کی آواز گونجتی ہے۔
”دیکھیں، میرے فاضل دوست نے جو کچھ کہا، میں اِس سے متفق نہیں۔ یہ رائے غیرحقیقی اور نیم پختہ...“
”یہ میری رائے ہے۔ اِس سے آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ میرا ال ل ل ل...“ کالم نگار بپھر گیا۔ 
سماجی کارکن: ”آپ کیا میرا، میرا کرتے رہتے ہیں؟ کیا صرف آپ کا ہے، ہمارا نہیں ... ہی ہی ہی... اور دیکھیں، مذہب کو یوں سیاست میں شامل کرنا...“
کالم نگار نے بات کاٹ دی۔ ”یہ آپ کیسی بات کر رہے ہیں؟ مذہب تو زندگی کا جزو ہے۔ آپ حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتے۔ میرا...“
”دیکھیں مذہبی بحث میں مت جائیں۔“ میزبان فوراً میدان میں کود گیا۔ کوآرڈی نیٹر کو اُس کی حاضر دماغی اچھی لگی۔ اُس کا لباس کچھ اور چُست ہوگیا۔ کینٹین میں کھڑے پروڈیوسر کو گڑبڑ کی بُو محسوس ہونے لگی۔
 ”... میں آپ سے صرف یہ پوچھنا چاہوں گا کہ آپ فحاشی کو ملک کا بنیادی مسئلہ سمجھتے ہیں یا نہیں؟“ میزبان کا مخاطب اسلام آباد اسٹوڈیو میں بیٹھا شخص تھا۔
”ہی ہی ہی... دیکھیں بات یہ ہے کہ دنیا کا ہر انسان اپنے نقطہئ نگاہ، اپنی عینک سے زندگی کا جائزہ لیتا ہے۔“ سماجی کارکن، المعرف سرخ گھوڑنے نے کرارا جواب دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ”غریب آدمی کے لیے گرانی سب سے بڑا مسئلہ ہے...“
کوفی سے محروم پروڈیوسر اسٹوڈیو کے دروازے پر پہنچ کر ٹھٹکا۔ سرخ بتی روشنی تھا۔ چست گلابی لباس بریک لینا بھول گیا تھا... یا بھول گئی تھی!
اسٹوڈیو کے اسپیکر سماجی کارکن کی آواز نشر کر رہے ہیں۔ ”جو عدم تحفظ کا شکار ہے، اُس کے لیے دہشت گردی سب سے بڑا مسئلہ ہے...“
سیاہ ہوا کا جھکڑ، جس میں بارود اور خون دوڑتا تھا، جس میں کوئٹہ کے شمشان گھاٹ کی راکھ تھی، اسٹوڈیو کے شیشے پر دباؤ ڈال رہا تھا۔
تباہی کا دیوتا شاور لے رہا تھا۔
پروڈیوسر تیزی سے اسٹوڈیو میں داخل ہوا۔ پیر تار میں الجھ گیا۔ گرنے سے اچھی خاصی آواز پیدا ہوئی۔ سب چونکے۔ مگر ”آن ایئر“ ہونے کے احترام میں خاموش رہے۔ 
اگلے ہی پل اسٹوڈیو کا دروازہ کھلا۔ نیوز روم سے اسسٹنٹ بھاگتا ہوا آیا۔ پہلے پروڈیوسر کو گرا ہوا دیکھ کر حیران ہوا۔ پھر اُس پر جھک گیا۔ کان میں کچھ کہا۔ 
پروڈیوسر، جس کی ٹانگ میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں، اُس نے ناگواری سے کہا۔ ”اُس گدھے (غالباً میزبان) کو انفارم کرو۔“ اسسٹنٹ ہدایت سنتے ہی پینل کی طرف بھاگا۔
سماجی کارکن: ”دیکھیں، جو بیمار ہے، اس کے لیے علاج معالجے کی سہولیات کا نہ ہونا سب سے بڑا مسئلہ ہے...“
میزبان نے کیمرے کی پیچھے کھڑی کوآرڈی نیٹر کو، حیرت سے مشابہہ کسی احساس کے ساتھ اسٹوڈیو کے داخلی حصے کو تکتے دیکھا۔ اُس نے ذرا ترچھا ہو کر دروازے کی طرف دیکھا۔ وہاں کوئی اوندھاپڑا تھا۔
کالم نگار (غصے سے): ”دیکھیں بھائی، آپ جو بات کہہ رہے ہیں وہ...“
”سماجی کارکن: ”میری بات پوری ہوں دیں۔ اور پلیز، مجھے بھائی مت کہیں۔ ہاں، تو میں کہہ رہا تھا کہ مسائل کی اہمیت کا تعین ہر انسان اِس زاویے سے کرتا ہے کہ وہ خود اُس سے کتنا متاثر ہوا...“
میزبان کے کان میں کھسر پھسر ہونے لگی۔
سماجی کارکن (ڈکار لیتے ہوئے): اب مجھے نہیں پتا کہ میرے فاضل دوست فحاشی کو ملک کا بنیادی مسئلہ کیوں گردان رہے ہیں۔ شاید یہ اِس کے متاثرین میں ہوں۔ ہی ہی ہی۔ سمجھ رہے ہیں ناں آپ؟“
کالم نگار: ”یہ کیا بکواس ہے۔ تمھیں بات کرنے کی تمیز...“
میزبان (کیمرے کی طرف دیکھتے ہوئے): ”ناظرین ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ زائرین کو لے جانے والی بس میں دھماکا ہوا ہے... آٹھ افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے... خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ یہ خبر سب سے پہلے...“
تین منٹ بعد میزبان اور کالم نگار لابی میں کھڑے تھے۔ انگلیوں میں سگریٹ داب رکھے تھے۔ کالم نگار میزبان کو اپنی زیرتعمیر کوٹھی کا نقشہ سمجھانے کے ساتھ سماجی کارکن کی اصلیت سے آگاہ کرنے کا فریضہ انجام دے رہا تھا۔ ”دو نمبر آدمی ہے۔ اسمگلنگ کا کیس بنا ہوا ہے اُس پر۔ منافق کہیں کا!“
 سماجی کارکن اسلام آباد کے بیورو چیف کے ساتھ بیٹھا کالم نگار کی کِھلی اڑا رہا تھا۔ ”اُس کی تو رگ رگ سے واقف ہوں۔ بڑا آیا کالم نگار کہیں کا۔ یونیورسٹی میں میرے ساتھ پڑھتا تھا...“
 رات بیت رہی تھی۔ کوآرڈی نیٹر پروڈیوسر کے گھٹنے پر ہاتھ رکھے بیٹھی تھی۔ کیمرا مین گٹکا چبا رہا تھا۔ صدر اور وزیر اعظم دھماکے کی مذمت کرنے میں اپوزیشن لیڈر پر بازی لے گئے تھے۔ مگر اسسٹنٹ کو تاحال کوفی نہیں ملی تھی۔ کینٹین بوائے نے مالک کے کی خصوصی ہدایت پر کوفی چھپا دی تھی۔
نیستی تھی۔ رات تھی۔ سیاہی کے رتھ پر سوار ہوائیں تباہی کے دیوتا کے سامنے رقصاں تھیں۔ آسمان کے نچلے درجے میں جشن برپا تھا۔ بے حسی کے دیوتا کی تاج پوشی ہونی تھی۔ تقریب کا مہمان خصوصی امن کا دیوتا تھا، جو زندوں سے اُوب چکا تھا۔
آسمان کے اوپری درجے خالی ہوچکے تھے۔ آج رات وہاں کوئی نہیں تھا!!

Post a Comment