عائشہ صدیقی
ہم مسافر ہیں ہمیں لوٹ کے جانا بهی تو ہے
زندگی تجھ کو مگر پار لگا نا بهی تو ہے
میں تیرے عشق میں افسانہ بنی بیٹهی ہوں
تو جب آئے گا تجهے پڑهہ کے سنانا بی تو ہے
اُس طرف مجهہ کو بلاتی ہے محبت تیری
اِس طرف راه میں حائل یہ زمانہ بهی تو ہے
بس یہی سوچ کے دروازہ کهلا چهوڑ دیا
شام ہوتے تجهےگهر لوٹ کے آنا بهی تو ہے
جو تیرے ہجر میں ناسور ہوا جاتا ہے
دل کا وہ زخم مجهے تجهہ کو دکهانا بهی تو ہے
بس یہی سوچ کے سامانِ سفر باندھ لیا
وہ بُلائے گا اگر لوٹ کے جانا بهی تو ہے

Post a Comment