شاعر ی فکری الہام ہے۔ ادیب اور شاعر اپنے عہد کا فطری ترجمان، مصلح، نباض و جراح ہوتا ہے۔ اپنے گردو پیش، اپنے دور کی سماجی شکست و ریخت، معاشرتی نا ہمواری اور سیاسی حسن و قبح اور معلوم و نا معلوم حوادث شاعر کی محسوسات کی دنیا میں ہلچل مچا دیتے ہیں۔ ایک ارتعاش پیدا کر دیتے ہیں اور اس کے اظہار اور ترسیل کے لئے شاعرانہ فکر ِ فلک رس اور ذہن رسا گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اُجالوں کے قمقمے فروزاں کر کے”اُجالوں کے سفر“ کی راہ ہموار کرنے کا حوصلہ جٹاتا ہے۔اس سفر کا زاد ِ راہ قلم و قرطاس کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔
 بقول  ِفیض ؔ
متاع ِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون  ِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
ذوالفقار نقوی ؔ  کے قلم کا سفر ”اُجالوں کا سفر“ ہے۔ اُجالے اندھیروں کی ضد ہیں۔ اُجالے اندھیروں کے مسافر کی ضرورت ہیں۔ اُجالے شب ِ دیجور


کے سیاہ  بطن سے ایک بچہئ نو کی نوید لاتے ہیں۔ ذوالفقار نقویؔ کی پہلی تخلیق  ”زاد ِ سفر“  اور اب ”اُجالوں کا سفر“ اُن کی تخلیقی قوتوں کے ارتقائی مراحل کی نشاندہی کرتی ہے۔ ذوالفقار نقوی کی جواں سال طبعی عمر میں پیرانہ سال کی پختگی، بالغ النظری، بالیدگی اور پیچیدگی اور تفکرو تخیل کی بلند پروازی یقیناً اُنہیں اپنے ہمعصر شعراء میں ممتاز کر چکی ہے۔ اُن کا کلام ملکی اور غیر ملکی جرائد میں تواتر سے چھپ رہا ہے۔ جدید دور کے انٹرنیٹ اور برقی ذرائع ابلاغ نے اُنہیں بہت دور تک متعارف کروایا ہے اور یوں یہ شاعر ِ طرح دار سرحدی ضلع پونچھ کے میرے گاؤں، میرے مسکن گورسائی کے سادات میں جنم لے کر  چراغ حسن حسرتؔ، دینا  ناتھ رفیقؔ،  تحسین جعفری اور کرشن چندر کی علمی و ادبی میراث اور شاعرانہ وراثت کا سچا امین ثابت ہو رہا  ہے۔
 ذوالفقار نقویؔ دینی گھرانے میں پلے بڑھے اور پروان چڑھے ہیں، عقیدے کے اعتبار سے موالائی ہیں، اِس تناظر میں اُن کی شاعرانہ جبلت کے لئے دینی مجالس و محافل ایک مہمیز ثابت ہوئیں اور پھر اُفتاد ِ طبع اور میلان نے اُنہیں یہ مقام عطا کر دیا ہے کہ آج وہ پڑھے جاتے ہیں، سنے جاتے ہیں اور اُن کی پزیرائی اُنہیں یہ سفر رواں دواں رکھنے کے لئے حوصلہ بخشتی ہے۔
آج کا شاعر شراب کے مٹکے سے نکلتا دکھائی دیتا ہے۔وہ خمریات و شباب کی طرب انگیزیوں سے لطف اندوز ہوتا نظر نہیں آتا۔ وہ دن لد گئے جب وہ زُلف ِگرہ گیر کا اسیر ہو کر رہ جاتا تھا۔ جب محبوب کے حسن  ِتوبہ شکن اور ادائے حوش ربا سے اُس کی تسبیح کے دانے ڈولنے لگتے تھے۔اب وہ زندگی کے تلخ حقائق اور کڑوے سچ کو نظر انداز کرنے کامتحمل نہیں ہو سکتا۔محبت کے مجازی معنوں سے شاعر کی بغاوت اور محبت کے آفاقی پیغام کی جانب مراجعت نے اسے اُس کے فکری کینواس کی وسعت کا نقیب بنا دیا ہے۔ وہ نہ وظیفہ خور رہا  نہ قصیدہ گو۔ اُس میں استغنا، بے نیازی اور قناعت کے عناصر غالب آ گئے۔ اُس نے سماج کے ناسوروں کی جراحی، فرد کے دکھ درد کی مسیحائی اور معاشی نا انصافی کو قلم زد کرنے کو اولیت دینے کا رندانہ فیصلہ لے لیا۔ 
ذوالفقار نقوی کہتے ہیں  ؎
میرے بچے بھوک سے بلکیں 
رنگیں تیری شام و سحر ہے
مخمل کا ہے تیرا بچھونا
میرا بستر برگ و حجر ہے
ایسے میں شاعر کا حساس دل اُسے طرب گاہوں سے رزم گاہوں میں لے آتا ہے۔ وہ طربیہ شاعری سے رزمیہ شاعری کی جانب سوچ کے دہارے موڑ دیتا ہے۔وہ ایک ماہر فن کار کی مانند حقیقت پسند بن جاتا ہے۔ حالات کا سامنا کرتا ہے۔اپنے دور کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اُس سے مخاطب ہوتا ہے۔وہ  عالمی انسانی مساوات، بھائی چارے، آفاقی جذبہئ اخوت و محبت کا داعی، نقیب اور ترجمان بن جاتا ہے۔اِس بدلتے تناظر میں نئی نسل کے نمائندہ شاعر ذوالفقار نقویؔکو متعارف ہوتے دیر نہیں لگتی۔نقویؔ کی دینداری، اُن کا اسلامی شغف اور محسن  ِ انسانیت کی ذات ِ والا صفات  حضرت محمد مصطفیٰ ﷺسے اُن کی عقیدت اُن سے یہ دعائیہ شعر کہلواتی ہے۔
کر عطا پاک سخن، پاک نظر، دل طاہر
میرے احساس کی دنیا کو مدینہ دے دے
ذوالفقار نقویؔ اپنی تازہ تخلیق کا تعارف اِس شعر سے کرواتے ہیں۔
اُجالے پھر اُڑانیں بھر رہے ہیں 
کوئی خورشید ٹوٹا ہے کہیں پر
خورشید اُجالوں کا منبع، روشنی کا محوراور اپنی حیثیت و ہییت میں یکتا ہے۔لیکن خورشید ٹوٹنے کی صرف ایک ہی مثال آج تک مل پائی ہے اور وہ  ہے سائنسی نکتہئ نظر سے آگ کے دہکتے ہوئے ایک عظیم گولے کا ٹوٹ کر پاش پاش ہو جانا اور اِن چاند ستاروں اور سیاروں کا وجود میں آنا۔بگ بینگ تھیوری۔اور یوں اندھیروں کے خاتمے کا اعلان۔ شاید نقوی  اِس طرح کے ایک مزید نیچرل تغیر کے متمنی ہیں کہ یوں  اِس دنیا کو پھر سے اُجالوں سے بھر دیا جائے۔یوں وہ اُجالوں کی طرف بلاتے ہیں۔ وہ جو روشن راہوں کی نشاندہی کرتے ہیں، وہ جو جہل و ظلمت کو اپنا لوہا منواتے ہیں اور وہی اہل ِ ایمان و ایقان ہوتے ہیں اور بے شک اِس کا مصداق ہوتے ہیں کہ   ؎
جہاں میں اہل  ِ ایماں صورت ِ خورشید جیتے ہیں 
اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے،  اُدھر ڈوبے، اِدھر نکلے
نقویؔ جواں سال ہیں، اُن کی غزل کا رنگ و آہنگ بھی اچھوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں  ؎
دھنک کے ساتھ اک کالی گھٹا ہے
حنائی ہاتھ زلف ِ عنبریں پر
ذوالفقار نقویؔجا بجا اقبال ؔ کے رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔ شعر دیکھیں۔
                   زیر  ِ بام  ِ گنبد ِ خضرا  اَذاں 
                وہ بلالی صوت، وہ سامع کہاں 
ذوالفقار نقویؔ حسن کو مہمان بنانے سے لا حول کا ورد کرتے ہیں۔اُنہیں غالباً اس حقیقت کا ادراک ہے کہ  
”در جوانی توبہ کردن شیوہئ پیغمبریست“۔۔۔۔فرماتے ہیں۔
کیسا ہے ترا حسن  ِ پشیماں، لاحول
پھر کفر ہواآج ہے مہماں، لاحول
تو محو  ِ طرب، رقص کناں، میں فریاد
سب حلقہئ احباب پریشاں، لاحول
زندگی جہد ِ مسلسل اور کوشش ِ نا تمام کا نام ہے، اس میں استقلال سے مردانہ وار حالات سے مقابلہ کرنے کا نام ہی مردانگی ہے۔نقویؔاپنے آہنی ارادوں کا یوں اظہار کرتے ہیں۔
زندگی میں حزن و غم کے آئے کتنے کوہسار
عزم و استقلال میرے نے مگر مانی نہ ہار
مُلا و مفتی کے فتوؤں پر بھر پور ضرب لگاتے ہوئے بہت دلنشیں شعر کہتے ہیں۔
تقریر میں ماہر ہے تو اے حضرت ِ واعظ
جذبات پر ایمان کا قبضہ نہیں ہوتا
مُلا ہیں تری جیب میں اے حاکم ِ دوراں 
اِس دور میں فتویٰ کوئی مہنگا نہیں ہوتا
ذوالفقار نقوی ؔاپنی خودی، خودداری اور اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں اور بر ملا کہتے ہیں۔
آتا ہو جس سے حرف تیری آن بان پر
بہتر ہے خاک ڈالیے ایسی اُڑان پر
وہ اپنی عزت ِ نفس اور اپنی خودداری کے باعث کسی کی منت اُٹھانے اور رہین ِ نیاز ہونے کو اپنے لئے اچھا نہیں سمجھتے۔ غالباً وہ یہ مان کر چل رہے ہیں کہ یہاں عالی ظرف نہیں، خالی ظرف زیادہ ہیں جو احسان جتا کر کمال تردد میں ڈال دیتے ہیں۔ اس لئے وہ کہتے ہیں۔
ہم گرے، گر کے اُٹھ بھی گئے
تجھ سے کس نے کہا سنبھال ہمیں 
نقویؔ کے نزدیک شعر معنویت کا دبستان نہ سجائے اور صرف شعر برائے شعر ہو تو اُس کی کوئی اہمیت نہیں۔ وہ فرماتے ہیں۔
کر سکے جونہ عطا حسن  ِ معانی کچھ بھی
ایسے خاموش دبستاں سے مجھے کیا لینا
زندگی میں خواہشات مسائل کو جنم دیتی ہیں اور اضمحلال کا باعث بنتی ہیں لیکن تمناؤوں، آرزؤوں اور اُمنگوں پر قابو پانا ہر انسان کے بس کا روگ نہیں، یہ مراحل وہی طے کرتے ہیں جو ایمان و ایقان کے لا فانی اثاثے کو حرز ِ جاں بنا لیتے ہیں۔ اسی لئے با بانگ ِ دہل کہتے ہیں کہ۔۔۔
تمناؤں کا نقویؔ سر کچل دو
جو پالو گے توبرسیں گی تمہی پر
غرض محسوسات کا رد ِ عمل اوربرملا،  بر محل اور بر جستہ نشاندہی کے ساتھ ساتھ ذوالفقار نقویؔ ہر سماجی برائی کے تدارک اور غیر مساوی تقسیم کو عدل و انصاف کی میزان مہیا کرنے کا جتن کرتے ہیں اور اپنے فن کو اس اصلاحی عمل کے لئے کمال چابکدستی اور حاضر دماغی سے  استعمال کرتے ہیں۔
نقویؔ صاحب کا کلام نغموں کے آہنگ اور جذبوں کے اخلاص کا حسین امتزاج ہے۔یہی وہ اوصاف ہیں جو ایک تخلیق کار کی تخلیق کو لا مثال اور لا فانی بنا دیتے ہیں۔ بقولے۔
اخلاص ہو جس میں جذبوں کا، آہنگ ہو جس میں نغموں کا
لفظوں سے بنی وہ من موہت تصویریں زندہ رہتی ہیں 
اقبال کی دلکش نظمیں ہوں یا نثر غبار  ِ خاطر کی 
پس خون  ِجگر  سے لکھی یہ تحریریں زندہ رہتی ہیں                 
  خون ِ جگر کی آمیزش سے تیار کی گئی روشنائی کا رنگ عنابی ہو جاتا ہے۔ اس کا نقش اَن مٹ اور اُس کے دورانیے کو دوام حاصل ہو جاتا ہے۔۔۔
نقش ہیں سب نا تمام خون  ِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون  ِ جگر کے بغیر
ذوالفقار نقویؔ اگرچہ اپنی پہلی تخلیق ”زاد  ِ سفر“ کے بعد  ”اُجالوں کا سفر“ قارئین کو نذر کر رہے ہیں تاہم ابھی بہت دور تلک جانا ہے۔ خلاؤں میں نئی کہکشوں کو کھوجنا ہے۔ابھی سرحد ِ ادراک سے اُس پار تاکنا ہے۔ ابھی خرد کے اندر جھانکنا ہے۔ ابھی راز ہائے سر بستہ کی پرتیں کھولنا ہیں۔ ابھی معموں کو حل کرنے کے لئے کٹھن مہمات چھیڑنی ہیں۔
نقویؔ کے کلام میں روایتی عنصر غالب لگتا ہے لیکن بسا اوقات وہ روایت سے بغاوت کرتے بھی نظر آتے ہیں۔داخلی اور خارجی محرکات پر نقوی کی گرفت کو ابھی مضبوط تر ہونا ہے۔چونکہ اُن کی ذہانت اور بلاغت کا جادو اُن کے کلام میں سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اِس لئے ”اُجالوں کا سفر“  یقیناً اُنہیں مراد کی منزل عطا کرنے میں خشت ِ اول ثابت ہو گا۔وہ کہتے ہیں۔
چاک پر ذرے تلاطم خیز تھے
کوزہ گر نازاں تھا اِس تعمیر پر
نقویؔ لفظیات، استعارات، تشبیہات، تلمیحات، اور ترکیبات کا تانا بانا بنتے ہیں اور اُنہیں تخیل و تفکر کا جامہ پہنا کر اصناف ِ سخن کے جس رنگ روپ اور پیرائے میں بھی پیش کریں اُس میں معنی کے دفاتر کھلتے نظر آتے ہیں۔یہ اچھوتا پن ہے۔یہ نُدرت ہے اور یہی انفرادیت ہے۔ نقویؔ رقم طراز ہیں۔
رُک ذرا،  پڑھ کلمہ ئ   لا تقنطو
خود بخود  روزن کھلیں گے درمیاں 
شاعری، بقول ِجوشؔ۔
حباب ہے، آبگینہ ہے، شیشہ گری ہے
حباب ہواؤں میں تحلیل نہ ہونے پائے، شیشہ گری میں احتیاط یہ ہے کہ یہ جب ٹوٹ جائے تو پیوند کاری اور رفو گری ممکن نہیں، اور آبگینے کو ٹھیس پہنچے تو اُس کی نزاکت کا زیاں نا قابل ِ تلافی ہوتا ہے۔اسی لئے شاعرانہ عظمت تقاضا کرتی ہے کہ ایسے حادثات سے با سلامت نکل جانے کا فن سیکھ لیا جائے۔حقیقت یہ ہے کہ شاعر بقول  ِ ساحرؔ حوادث کی صورت میں جو پاتا ہے وہی لوٹاتا ہے۔
ذوالفقار نقویؔ کا فن اُنہیں حادثات سے جھوجھنے، اُن کا سامنے کرنے اور زندگی کی ٹیڑھی میڑھی پکڈنڈیوں پر ثابت قدمی اور استقلال سے درست سمت میں رہنمائی ملتے رہنے اور ایک زمانے کو ساتھ چلانے، ایک دنیا کو متاثر کرنے اور ایک سماجی بگاڑ کو بدلاؤ کی منزل سے ہمکنار کرنے کا فن ہے۔یہی نقویؔ کی پختہ کاری ہے۔تجربے، احساس اور جذبے کی تجسیم ہی قاری کے دل و دماغ کو متاثر کرتی ہے۔ یہ طرہئ امتیاز بھی نقویؔ کو حاصل ہے۔
اردو شاعری اور اردو نثری تخلیقات میں فارسی لفظیات اور ترکیبات کا بر محل استعمال ہر دور میں زبان کے معیار کی کسوٹی رہا ہے۔اور ماہرین  ِلسانیات نے اچھی اردو کے لئے فارسی کا ملکہ لازمی مانا ہے۔ ذوالفقار نقویؔ نے بسا اوقات فارسی تراکیب کو خوبصورت رنگ و آہنگ میں پیش کر کے زبان کو جِلا بخشی ہے۔
نقویؔ عہد ِ نو کے منتظر ہیں۔ وہ ظلم کوبدلنے کی تمنا لئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔وہ کہتے ہیں۔
جا کر امیر  ِ شہر کے ہاتھوں سے لے عناں 
جو ظلم کو مٹا سکے وہ دور لے کے آ
عزم  ِ حسین ؑ، بازوئے حیدر ؑ کی بات کر
ہنگامہ جو بپا کرے وہ زور لے کے آ
شاعر فرار کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن کبھی کبھی زمانے کی کج روی اور حالات کی نا مساعدگی کی جانب لطیف اشارہ کیا جانا فطری ہے۔نقوی ؔ فرماتے ہیں۔
روشن تھے جن کے حسن سے یہ بام و در مرے
تارے سبھی وہ چرخ  ِ کہن سے نکل گئے
اُن کو نہ راس آیا گلوں سے یہ اتصال
ہم ایک خار تھے جو چمن سے نکل گئے
مختصر اً  یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ذوالفقار نقویؔ کا علمی شجر، ادبی سفر، اُن کی سخنوری اور اُن کا ذوق و شوق اُنہیں دنیائے ادب میں بلند مقام عطا کرے گا۔ دعا ہے کہ دبستان  ِ پونچھ کا یہ مہکتا پھول خطہ ئ پیر پنجال کاشاعر ِ طرحداردبستان  ِ دلی و لکھنؤ کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں دیر نہ کرے۔ نقویؔ ہمارا افتخار ہیں۔
میرؔ کی غزل، غالبؔ کا تخیل، اقبالؔ کا تفکر، فراقؔ کی آفاقیت، ساحر ؔکی رومانیت اور فیضؔ کی جوئے نرم رو اپنی جگہ، شبلی کی انشا پردازی، آرزوؔ کی نثر نگاری  اور جانے کس کس کے رشحات ِ قلم دنیائے ادب و اقلیم ِ سخن کا گنج ِ گراں مایہ سہی لیکن خطہ ئ پیر پنجال کے اُبھرتے شاعر ذوالفقار نقویؔ ادب و سخنوری کی عمومی تاریخ میں انشا اللہ جلد اپنا مقام بنا لیں گے۔ اس لئے کہ اُن کی طبیعت جولانی پر ہے اور اُن کے مزاج میں مردم شناسی ہے۔اُن کی شاعری میں آمد ہے۔اُن کا مشاہدہ تتلیوں کی رنگ بیزی اور قوس و قزح کی رنگینی اور کائنات کی بوقلمونی لئے ہوئے ہے۔
        نذیر قریشی 
ریٹائرڈ  ڈسٹرکٹ پروجیکٹ آفیسر، تعلیم ِ بالغاں، ضلع پونچھ
جموں و کشمیر۔ بھارت

2 تبصرے

  1. ہے اجالوں کا سفر موضوعِ بحث
    روح پرور ہے نوائے ذوالفقار

    بولتا کالم پہ ہے یہ تبصرہ
    فکر و فن کا ایک دلکش شاہکار
    احمد علی برقی اعظمی

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. بہت شکریہ محترم صدیقی صاحب اور جناب برقی صاحب

      حذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں