شہزاد نیئر
مری اونچ نیچ سے آشنا نہیں ہو سکی
وہ حسیں ڈگر مرا راستہ نہیں ہو سکی
لب و حرف سے مرا اعتبار ہی اُٹھ گیا
ترے بعد مجھ سے کوئی دعا نہیں ہو سکی
مرا اشک چشمہ ء چشم میں کہیں گُھل گیا
کوئی روشنی تھی مگر دِیا نہیں ہو سکی
وہ عجیب رنگ کی بے کلی مجھے دے گیا
اِسے دل سے دور بہت کیا ، نہیں ہو سکی
ترا عکس دل میں جڑا رہا، سو پڑا رہا
تری شکل آنکھ پہ آئنہ نہیں ہو سکی
تری آنکھ سے مجھے اِذن ِحرف نہ مل سکا
مری آرزو مرا مُدّعا نہیں ہو سکی
مرے ہونٹ پر گُل ِ گفتگو نہیں کھل رہا
یہ بہار بھی مرا ماجرا نہیں ہو سکی
دل ِ شاعراں میں وہ پھانس بن کے چُبھی رہی
کوئی واردات جو واقعہ نہیں ہو سکی 

Post a Comment