راشدہ ماہین ملک

جلتے سورج کو جو بجھنے سے بچایا مَیں نے
اُس پہ پڑنے نہ دیا رات کا سایہ مَیں نے
رک گئی سانس اُسے پھر سے بلایا مَیں نے
اس نے دیکھا تو بہت ناز دکھایا مَیں نے
خواب میں پھول کِھلا پھول میں خواہش جاگی
کتنی مشکل سے اسے ہاتھ لگایا مَیں نے
لوگ جس آگ سے لیتے ہیں لپک خوابوں کی
ہجر کا دکھ اُسی آتش سے اُٹھایا مَیں نے
دل کی آنکھوں سے اُسے دیکھ لیا ایک نظر
شاخ پر پھول نہیں خواب کِھلایا میں نے
گُھل نہ جائے کسی گرداب کے گدلے پن میں
نور کا چاند جو دریا سے اٹھایا مَیں نے
سرمئی تھال میں رکھا تھا ستاروں کا جمال
ٹھرے پانی سے نیا عکس اُٹھایا مَیں نے
رات بھر خواب میں اِک پھول صدا دیتا رہا
صبح اِک پیڑ کو سوتے سے جگایا مَیں نے
اِک مرا دل کہ مری انکھ سے ٹپکا آخر
اِک مرا اشک کہ مٹی میں ملایا مَیں نے
تیرے دامن کے سوا کون تھا محرم میرا
اپنا آنسو نہ کہیں اور بہایا مَیں نے
رکھ گئی خواب مری انکھ میں امیدِوصال
چل پڑی سانس اُسے پھر سے بلایا مَیں نے
ڈھانپ لے اس میں ستاروں کو بھی ماہین ملک
تتلیاں ٹانگ کے آنچل کو سجایا مَیں نے

Post a Comment