ڈاکٹر صغرا صدف
چہار سو غبار ہی غبار کر دیا گیا
یہ کیا ہوا کے دوش پر سوار کر دیا گیا
جھلک دکھا کے اس نے ہر سو تشنگی اچھال دی
وجودِ کائنات بے قرار کر دیا گیا
رخِ حیات پر مالِ ذات منکشف ہوا
فنا نصیب جسم باوقار کر دیا گیا
گھری رہوں میں ہر گھڑی ہی معجزاتِ عشق میں
جمالِ عجز کو مرا شعار کر دیا گیا
مجھے یقین آ گیا کہ تھا تری نگاہ کا
وہ تیر جوجگر کے آر پار کر دیا گیا
نفی ہوئی کبھی صدف جو مجھسے اپنی ذات کی
مجھے عجب ثبات سے دو چار کر دیا گیا

Post a Comment