علی زیرک
پیڑ کی ہر اک شاخ تو سایہ دیتی ہے
برف بدن کو دھوپ دلاسا دیتی ہے
اے میری خاموشی مجھ سے باہر آ
تو میری آنکھوں کو گِریہ دیتی ہے
آجاتی ہے خوشبو میرے کمرے میں
اور پھر میری نیند پہ پہرہ دیتی ہے
دریا جیسی آنکھوں والے اب تجھ کو
صحرا کی وحشت آوازہ دیتی ہے
ٹھنڈی آگ میں جلتے جسموں کی حدّت
پھلنے سے پہلے اک جھٹکا دیتی ہے

Post a Comment