اردو افسانہ کی سو سالہ تاریخ کا جائزہ اپنے سفرمیں 1936کے اہم سال پر آکر ایک نیا موڑ لیتا ہے جب لاہور کے ماہنامہ رومان میں ایک نوجوان کا پہلا افسانہ۔بدنصیب بت تراش۔ کی عنوان لئے شائع ہوا۔
یہ نوجوان جس نے افسانہ نگاری کا اْغاز بدنصیب بت تراش سے کیا تھا اسے دنیا احمد ندیم قاسمی کے نام سے جانتی ہے۔یہی وہ زمانہ تھا جب ترقی پسند تحریک نے بھی جنم لیا جس نے ادب کا رخ حقیقت پسندی کی جانب موڑ دیا۔
احمد ندیم قاسمی کا ادبی سفر اس وقت شروع ہوا جب ترقی پسند تحریک ایام طفلیت سے دوچار تھی اور اسے بلوغت سے ہم کنار کرنے کے لئے ادب نوازوں کا ایک بڑا حلقہ فکری اور تخیلاتی

دور سے ہی گذر رہا تھا۔خواہ وہ سرمایہ کار مخالف صاحب قلم ہوں یا فیض احمد فیض جیسا غموں کو پینے والا شاعر، ہر کوئی ترقی پسند فکر کو برتنے کے حوالے سے لیت و لعل سے کام لے رہا تھا ایسے وقت میں احمد ندیم قاسمی نے سجاد ظہیر،علی سردار جعفری، خواجہ احمدعباس، معین احسن،فیض احمد فیض اور مجروح سلطان پوری جیسے اہم ناموں کے تعاون سے سالاری کا فریضہ انجام ویتے ہوئے اس فکر کو تحریک کی شکل دینے کی شعوری کوشش کی جس کے نتیجہ


میں حقیقتاََ ترقی پسند تحریک کو اردو ادب میں تحریک کا درجہ حاصل ہوابعد ازاں بوجہ ترقی پسند تحریک سے ان کا رحجان جدیدیت کی جانب ہوگیا۔اس کی غالباََ ایک وجہ تو وہی ہے جو انہوں نے اپنے ایک مضمون حقیقت اور فنی حقیقت میں بیان کی ہے کہ اگر ہم حقیقت اور صداقت پسندی کے فرق کو اپنے ذھنوں میں واضح کر لیں تو ادب و فن میں حقیقت کے اظہار سے متعلق ہماری تمام الجھنیں دور ہو سکتی ہیں اور یہی وہ نقطہ ہے جو ترقی پسند ادب کی تحریک کی ابتدا میں ایک حد  تک نظر انداز کیا جاتا رہا۔ دوسری وجہ تحریکِ ترقی پسند ادب میں احمد ندیم قاسمی کی خدمات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ان کی شخصیت کو پس پشت ڈالنا بھی رہا ہے۔ اپنے ایک مضمون میں ترقی پسند تحریک سے وابستہ چند ایک ہم عصروں سے جس ناراضگی کا اظہار کیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بطور خاص فیض احمد فیض سے اس بنا پر خفا تھے کہ انہوں نے ان کو اس طرح متعارف نہیں کرایا جن کے وہ مستحق تھے۔
 احمد ندیم قاسمی  ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے مگر انہوں نے انتہا پسندی کی بجائے ہمیشہ اعتدال پسندی کا رستہ  اختیار کیا۔ انہیں ترقی پسندوں کے مذہب، خدا کی مخالفت اوردہریت میں ایقان کو ہی ترقی پسندی خیال کرنا جیسے نظریات سے قطعی اتفاق نہ تھا لیکن وہ مارکس سے متاثر تھے اور ملک کے غریبوں کو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے شکنجے سے نجات دلا کر مساوات اور انصاف  پر مبنی نظام لانے کے آرزو مند تھے یہی وہ سوچ تھی جو پریم چند کے ہاں بھی پائی جاتی تھی  اسی پس منظر میں احمد ندیم قاسمی کی افسانہ نگاری پروان چڑھی۔
پریم چند اور احمد ندیم قاسمی کی افسانہ نگاری  میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔اس کی ایک وجہ تو وہی ہے جس کا اظہار اوپر کیا گیا ہے دوسری  اہم وجہ  دونوں کا گاؤں سے تعلق ہونا ہے۔ پریم چند کا تعلق اترپردیش کے گاؤں سے تھا اس لئے انکی افسانہ نگاری میں دیہی ماحول ملتا ہے۔یہاں احمد ندیم قاسمی کی رگ رگ میں انگہ کی دیہی مہک رچی بسی تھی جس نے ان کی افسانہ نگاری کو دیہی کلچر سے ہم آہنگ کیا۔
احمد ندیم قاسمی کی کہانیوں کے موضوعات ظلم سہتے مزدور، غریب عوام، ظالم جاگیردار اوراس علاقے کی تھرکتی جوانیاں کردار تھیں جہاں راتیں جاگتی ہیں۔ان کے یہ سب کردار جیتی جاگتی زندگی کے کردار ہیں۔ یہ کردار شہری زندگی کے بھی ہیں اور دیہی زندگی کے بھی۔
پریم چند نے دیہی زندگی کی حقیقتوں کو جو آہنگ بخشا تھا،اسے زیادہ بلند نگہیئی کے ساتھ احمد ندیم قاسمی نے اجاگر کیا۔احمد ندیم قاسمی نے فکری اور موضوعاتی اعتبار سے جو اسلوب اختیار کیا اس نے زندگی کے ہشت پہلو کو وقت کے مدوجزر میں پیش کیا ہے۔ دیہات کی زندگی کے ہر پہلو کو احمد ندیم قاسمی کا فن زیرِ بحث لاتا ہے۔اپنی کہانیوں میں احمد ندیم قاسمی نے سماجی مسائل کو نظر انداز نہیں کیا۔ ان کی کہانیاں منٹو کی جنسی چاشنی کی لذت اور کرشن چندر کی رومان پرور زندگی سے نا آشنا ہیں۔1939میں چوپال کی اشاعت سے کوہ پیما تک سترہ مجموعہ ہائے افسانہ کی اشاعت ان کے اعلیٰ اور طویل نقش پا کا پتہ دیتے ہیں۔افسانے کی سو سالہ تاریخ میں نصف میں افسانے نے احمد ندیم قاسمی کے سنگ سفر کیا ہے۔
احمد ندیم قاسمی کے افسانوی سفر کے وقت پوری دنیا سیاسی انتشار اور جنگ کی ہولناکیوں کی لپیٹ میں تھی۔دوسری جنگ، عظیم کے پھیلاو، شدت اور دنیا بھر کی عسکری طاقتوں کی جنگ میں شرکت نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔وحشت و بربریت اور اخلاق بافتگی کے جتنے مہیب آثار اس جنگ نے پیدا کئے اس کی مثال مشرقِ بعید سے دی جا سکتی ہے جہاں آج بھی کروڑوں انسانوں کو اپنے باپ کی تلاش ہے۔پھر تاریخِ انسانی نے وحشی انسانوں کی وحشت کے نظارے دیکھے جب ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں نصف کروڑ انسان کو پلک جھپکتے ہی صفحہِ ہستی سے مٹ جانا پڑا۔اس کے ساتھ ساتھ جنگ کی بازگشت پوری دنیا میں عدمِ تحفظ کے شدید اضطراب کی صورت سنائی دی۔احمد ندیم قاسمی کا افسانہ،، ہیروشیما سے پہلے ہیرو شیما کے بعد،، اسی کرب، اذیت اور احساس کی عبرت ناک موت کی شکل میں شامنے آتا ہے جہاں زندگی قدرومنزلت، اچھے مستقبل کی خواہش ناجانے کتنے دلیروں کی زندگیاں موت سے زیادہ بھیانک انجام کار بنی ہیں،جنگ نے جسموں کو لقمہ اجل نہیں بنایا،خوشیوں اور غموں کے معیار کو بدل کر رکھ دیا۔ ہیرو شیما سے پہلے اور ہیروشیما کے بعد کا مرکزی خیال اسی جنگ کی ہولناکیوں کے عقب سے دیہاتوں میں ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوتے فکر کے ان منطقوں کی داستان ہے جن میں سب کچھ کھو گیا،حاصل حصول کچھ نہیں۔
ان کا افسانہ،، رئیس خانہِ،، غربت اور استحصال کی ایسی داستان ہے جس کو پڑھتے ہوئے انسان خود احتسابی کے مرحلے سے گذرتا ہے۔ کردار سازی ہو یا ماحول سازی احمد ندیم قاسمی کے افسانے پڑھتے ہوئے قاری اسی ماحول میں پہنچ جاتا ہے جس ماحول کی وہ عکاسی کر رہے ہوتے ہیں۔ کرداروں کو وہ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ کردار کا انگ انگ بولنے لگتا ہے۔ رئیس خانے کا ابتدائیہ دیکھئیے:
،، خاکستری رنگ کے پتھروں کی اس عمارت کو بڑے لوگ مسافر خانہ اورلوگ رئیس خانہ کہتے تھے شاید اس لئے کہ بڑے لوگوں کے لئے ڈاک بنگلہ موجود تھا اور چھوٹے لوگ سرائے میں ٹھہرتے تھے جہاں صبح اور شام کو بھٹیارے کے پاس تندور کے گرد بیٹھ کر موٹی موٹی روٹیوں پر دال کی ڈھریاں لگا کر کھاتے۔ رئیس خانے کے چوکیدار کی بیوی مریاں اور ڈاک بنگلے کے مالی کی بہن بہشتو کے حسن کا مقابلہ کرتے اور چٹخارے بھرتے اور لگے ہاتھوں ایک نظر بھٹیارے کی بیوی پر بھی دوڑا لیتے۔
افسانے کے اس آغاز سے انہوں نے ایک جانب رئیس خانے کا قاری سے تعارف کرا دیا تو دوسری جانب ایک مخصوص ماحول اور فضا کی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ ہی افسانے کے اہم کرداروں سے تعارف بھی کرا دیا۔
افسانہ ماسی گل بانو میں ماسی کا تعارف کچھ اس انداز میں کراتے ہیں۔ گل بانو جب چلتی تھی تو دائیں پاؤں کو اٹھاتی اور بائیں کو گھسیٹتی تھی۔ اس بے ربطی سے وہ ربط پیدا ہوتا تھا جس کی وجہ سے لوگ گل بانو کو دیکھے بغیرپہچان لیتے تھے۔
افسانہ بھرم میں ماحول کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں،، ڈوبتا ہوا سورج ایک بدلی سے چھو گیا تو شام کو آگ لگ گئی، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شفق بدلی میں سما نہیں سکی اس لئے چھلک پڑی ہے۔
ان کے ایک اور افسانے ماتم کا ابتدائیہ دیکھئیے،آسمان پر کفن سا سفید بادل چھا رہا تھا اور ہوا میں کافور کی سی بو بسی ہوئی تھی۔
منظر کشی کا ایک اور رخ دیکھئیے، افسانہ ہے زلیخا۔ِِدرختوں کی شاخیں رات کی خنکی میں ٹھٹھر کر رہ گئی ہیں۔ ہوا چلتی تو شاید ان کی رگوں میں اتری ہوئی برف جھڑ جاتی مگر ہوا بھی جیسے درختوں کے اس جھنڈ میں کہیں ٹھٹھری پڑی ہے۔ چاندنی میں کفن کی سی سفیدی ہے۔ فراخ اور ہموار لان پر ایک بلی دبے پاؤں بھاگی جا رہی ہے۔ وہ لان کے قوسی حاشیے پر اُگے ہوئے پھولوں پر ٹھٹھک کر رہ جاتی ہے اور اپنا ایک اگلا پنجہ اٹھا کر یوں حرکت دیتی ہے جیسے جادو کر رہی ہو۔
احمد ندیم قاسمی کی افسانوی دنیا کا سفر بڑا احساس خیز ہے۔گذرتی ہوئی زندگی کے ہر پہلو کو ان کے مشاہداتی تصور نے ان کی یاداشت میں محفوظ کر دیا۔
احمد ندیم قاسمی جذبوں کی تپش سے افسانے کو اس موڑ کی جانب لے جاتے ہیں جہاں افسانہ نگار قاری کو چونکانا چاہتا ہے بالکل اُسی طرح جیسے پریم چند سے منٹو تک تمام فن کار کسی نہ کسی مرحلے پر قاری کو چونکانا چاہتے تھے۔
کہانی کی بُنت، کہانی کے کردار، کہانی کا منظرنامہ اور معنی کا بہاؤجب یکجا ہوتے ہیں تو احمد ندیم قاسمی کی کہانی بنتی ہے۔

Post a Comment