لیاقت علی عاصم
خواب کے دوران ہی تعبیر چوری ہو گئی
تُو نہیں بچھڑا مری تقدیر چوری ہو  گئی
کچھ نہیں معلوم دل کی ٹوٹتی دیوار سے
خود ہٹائی یا تری تصویرچوری ہو  گئی
اب تو کوئ دو قدم وحشت میں بڑھ جائےتو بس
ایسا لگتا ہے مری جاگیرچوری ہو  گئی
اول اول دل سے احساسِ سکونت چھن گیا
آخر آخر حسرتِ تعمیر چوری ہو  گئی
شہر کا کیا حال ہے میں جانتا ہوں دوستو
رات زنداں سے مری زنجیرچوری ہو  گئی

Post a Comment