انور زاہدی
ابھی سرور ہے باقی غبار اُترا نہیں 
تُمہارے عشق کا اب تک خُمار اُترا نہیں
خزاں بہار بنی اور فصل گُل پت جھڑ 
مگر رُتوں کا ابھی تک شُمار اُترا نہیں
عجیب کیفیت ہے بے کلی کہیں جس کو
خیال تیری پناہ میں حصار اُترا نہیں
تمام رات رہا حبس وہ قیامت کا 
ہوا چلی نہ زمیں نم بُخار اُترا نہیں
میں بے قرار رہا عمر بھر تڑپنے کو 
کہ جیسے ایک سمندر قرار اُترا نہیں
دیا سا جلتا رہا گھر میں آخر شب تک 
تھا انتظار وہ جس کا کنار اُترا نہیں
بہت حکائتیں ہیں بیتے دنوں کی انور
بہت سی یاد رہیں پر نکھار اُترا نہیں

Post a Comment