[ترتیب و پیش کش:سیدانورجاوید ہاشمی]
اُردو میں افسانہ و ناول نگاری کے حوالے سے اولّیت کے حامل منشی پریم چند 31جولائی1880ء کو پیداہوئے تھے۔ادبیات ہند میں حقیقیت نگارادیب کے طورپر اُن کی حیثیت مسلمّہ ہے۔روزانہ زندگی کے مسائل،بددیانتی،خیانت مجرمانہ،زمینداری،قرض،غربت،استحصال اُن کی افسانوی تحریروں کے اہم موضوعات رہے۔اگرچہ اُن کا تعلق ہندوگھرانے سے رہا تاہم انھوں نے ٹھیٹ سنسکرت یا ہندی زبان پر عوام کی بولی اور زبان کو ترجیح دی اور اس طرح اردو کے مایہ ناز عظیم فکشن نگار کہلائے۔جدید ہندی ادبیات میں اُن کو صف اول میں جگہ و مقبولیت حاصل رہی۔اپنے وقت کے معاشرتی و معاشی حالات و مسائل کے تناظر میں ان کی کہانیوں کو عوام و خواص دونوں نے سراہا۔سات برس کی کم سنی میں وہ ماں کی شفقت و محبت سے محروم ہوگئے 

تھے والد نے دوسری شادی کرلی منشی پریم چند اپنی بڑی ہمشیرہ سے انسیت رکھتے تھے جنہوں نے ابتدائی تعلیم ایک مدرسے کے مولوی سے دلوائی اور یوں اُردو زبان بولنا،لکھناپڑھنا سیکھ گئے۔پندرہ برس کی عمر میں جب وہ نویں جماعت میں تعلیم پارہے تھے شادی کے بندھن میں خلاف مرضی جکڑ دیے گئے۔
اگلے برس اُن کے والد کا بھی دیہانت ہوگیا اور اُن کے اوپر سوتیلی والدہ اور اُن سے جنم دادہ اولاد کی نگہ داشت کی ذ مے داری آن پڑی۔ایک وکیل کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کے ماہ وار پانچ روپے ملتے تھے میٹرک پاس کرنے کے بعد اُن کو اسکول میں کافی دشواریوں کے بعد اٹھارہ روپے ماہانہ تنخواہ پر ملازمت مل گئی۔ تعلیم و تعلّم کا سلسلہ نجی طورپرجاری رکھتے ہوئے منشی پریم چند نے انٹراور پرائیوٹ بی اے کے امتحانات پاس کرلیے۔ان کی کتابوں پر پریم چمد بی اے لکھاجانے لگاتھا۔متحدہ صوبہ ہندستان  میں وہ ڈپٹی سب انسپکٹراسکولز کے طورپر کام کرتے رہے۔1910ء میں وہ جامیرپور میں ضلعی مجسٹریٹ کی عدالت میں اپنی کہانیوں کے مجموعے سوزوطن کی اشاعت کے باعث سزایافتہ قراردیے گئے۔اس کتاب پر برطانوی ہند حکام نے پابندی عاید کردی اور چھپی ہوئی کتابوں کو نذرآتش کردیا گیا کہ یہ بغاوت پر آمادہ کرتی ہیں۔ابتدامیں نواب رائے کے نام سے کہانیاں لکھیں تاہم اس بندش کے بعد پریم چند کا فرضی نام اپنالیا۔
منشی پریم چند سے پہلے کہانیوں میں فینٹسی یا مذہبی رجحانات پائے جاتے تھے۔پانچ پرمیشور،عیدگاہ،شطرنج کے کھلاڑی،پوس کی رات،بڑے گھر کی بیٹی،کفن،ادھار کی گھاٹی،نمک کاداروغہ،غبن،گئودان اور نرملا اُن کی مشہور کہانیاں ہیں جب کہ کہانیوں کا مجموعہ مانسرور کے نام سے چھپا۔300 کہانیاں،ایک درجن ناول اور دو ڈرامے منشی پریم چمد نے لکھے جو شایع بھی ہوئے نشربھی کیے گئے۔کفن اور نرملا پر فلمیں بھی بنائی گئیں۔
ایک کم سن بیوہ شیورانی سے انھوں نے شادی کی جنہوں نے پریم چند پر ان کے مرنے کے بعد پریم چند گھر میں نامی کتاب بھی لکھی۔اجمل کمال /ڈاکٹرحسن منظر کے اردو ترجمے کے ساتھ اسے شایع کرچکے ہیں۔
گاندھی جی کی اپیل پر انھوں نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور وطن و قوم کے لیے اپنے قلم کو مزید متحرک کردیا ایک اخبار کی ادارت کی اور اسکول کے پرنسپل کا عہدہ چھوڑدیا۔ان کی کہانیاں نہ صرف ہندی اردو بلکہ روسی،چینی اور دوسری غیر ملکی زبانوں میں بھی ترجمہ و انتخاب ہوکے شایع ہوتی رہیں۔منشی پریم چند کا انتقال 8اکتوبر1936ء کو ہوا جب ترقی پسند تحریک کا آغاز ہورہا تھا اس تحریک پر منشی پریم چند کے اثرات رہے۔
خواجہ حسن نظامی حضرت نظام الدین اولیاء کے عقیدت مند کہانی کار،مدیر اور صوفی بزرگ کا انتقال 31جولائی 1955ء کو ہواتھا نظام المشائخ ان کا اخبار کراچی سے ملا واحدی نے دوبارہ جاری کیا تھا وہ دلی میں خواجہ صاحب کی قلمی معاونت بھی کرتے رہے تھے۔مغلیہ عہد کے عروج و زوال پر خواجہ حسن نظامی کی سبق آموز کہانیاں جو سچ و حقیقت پر مبنی ہیں ہمارے اردو کی نصابی کتب میں شامل رہی ہیں ۔ ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں

Post a Comment