ورنہ رُکنا تھا کہاںہم نے ترے گاؤں میں
پیڑ نے کھینچ لیا خودہی ہمیں چھاؤں میں
وہ کسی روز سمندر بھی بنا ہی لے گا
جو ملا سکتا ہو دریاؤں کو دریاؤں میں
میں تو افلاک میں پرواز کیا کرتا ہوں
تیری دھرتی تو بہت کم ہےمرے پاؤں میں
آ اِسے بھی کسی دریا کے حوالے کر دیں
ریت کی پیاس تو بُجھتی نہیں صحراؤں میں
خود کو مٹی کی طرح بھی نہ بچھاؤ گوہر
روند ڈالے گا ہر اک شخص تجھے پاؤں میں

Post a Comment