لیاقت علی عاصم
ہونٹ پتھرا سے گئے آنکھ نے جنبش نہیں کی
پھر بھی تجھ کو یہ گلہ ہے کہ ستائش نہیں کی
تجھ پہ لکھی تھی غزل بر سر- محفل نہ پڑھی
تری تصویر بنائ تھی نمائش نہیں کی
تُو نے کی ہوگی بچھڑنے میں کوئ کوتاہی
میں نے تجدید-ملاقات کی کوشش نہیں کی
تم تو بُت بن کے خدائ پہ اُتر آئے ہو
ہم نے تو صرف منایا ہے پرستش نہیں کی
اِس قدر ٹوٹ چُکا تھا مِرا پندار- صدا
پھر وہ آیا بھی تو رُکنے کی گذارش نہیں کی

ڈوبنے والے کی وحشت سے سبھی ڈرتے ہیں
دُکھ تو اِس بات کا ہے میں نے بھی کوشش نہیں کی
شعر جیسے بھی کہیں ہوں مگر اِس ناز کے ساتھ
میں نے شہرت کے لیے شہر میں سازش نہیں کی

1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں