علی زیرک

اور پھر یوں ہوا
پیش و پَس میں 
مری رائگانی کے باطن سے پھوٹے ہوئے نیلمیں واہمے
خالی پن کھا گئے
اور میں لاسمت کے دائرے میں دھڑکنے لگا
یہ جو اب گرد ہے پہلے آواز تھی 
جو مرے حلق میں اپنی تجسیم ِ نو پر خجالت اُٹھاتی ہوئی 
پھیلتی جارہی تھی
لہو میں سرکتی ہوئی خستگی، دم بہ دم زردآثار آنکھوں کو بہکارہی تھی
بدن ان دنوں سست و کم کوش تھا
ذہن مدہوش تھا
سات رنگوں کو میں نے اکائی کیا
اور ایندھن میں ڈھلتی تمناوءں کو قطرہ قطرہ جیا
تلملاتے ہوئے خوابچے
جن کی تشکیل پر زرد آثار آنکھوں نے گریہ کیا تھا 
چٹختی ہوئی ہڈیوں کے برادے میں گُم ہوگئے
اور میں 'بھیتر' کو بھرپور کرتا ہوا
اپنے' باہر' کے ہیجان سے 
منحرف ہوگیا

Post a Comment