نصیر احمد ناصر
فاصلوں کے حصار میں رہنا 
عمر بھر رہگزار میں رہنا
یا دلوں میں گمان کی صورت 
یا کسی اعتبار میں رہنا
چاروں جانب ہوا کے پہرے ہیں 
اے پرندو! قطار میں رہنا
میں کسی روز لوٹ آؤں گا 
تم مِرے انتظار میں رہنا
دن گھنے پیپلوں کی چھاؤں میں 
شام جلتے چنار میں رہنا
پی کے ہر شام زہر خوابوں کا 
رت جگوں کے خمار میں رہنا
پھیل جانا دلوں کی نگری میں 
ایک ہو کر ہزار میں رہنا
اس میں وارا ہو یا خسارہ ہو 
عشق کے کاروبار میں رہنا
اپنی گنتی، حساب خود رکھنا 
آپ اپنے شمار میں رہنا
دکھ کے قصے طویل ہیں ناصر
بات کے اختصار میں رہنا

Post a Comment