اقبال طارق
ختم جو ہوتی نہیں اُن خواہشوں کا سلسلہ ۔۔
اس پہ طارق یہ ہماری ہجرتوں کا سلسلہ ۔۔
رات کے دامن میں کوئی چاند مولا ڈال دے ۔۔
دیکھ تاحدِ نظر ہے ظلمتوں کا سلسلہ ۔۔
درد کے بادل ہمارے سر پہ جب بڑھنے لگے ۔۔
دھیرے دھیر ے چھٹ گیا سب دوستوں کا سلسلہ ۔۔
جو کتاب و حرف سے رکھتا کوئی نسبت نہیں ۔۔
اُس نے شجرے میں لکھا ہے شاعروں کا سلسلہ ۔۔
رُک ہی جائے گا کسی دن دیکھنا تھک ہار کر ۔۔
چاند اور سورج کی ہے جو گردشوں کا سلسلہ ۔۔۔
زیست کی جلتی چتا آنکھوں سے تو بجھتی نہیں ۔۔
پھر بھی آنکھوں سے ہے جاری رحمتوں کا سلسلہ ۔۔

Post a Comment