سعادت سعید

گھر سے مَیں اپنی زنبیل میں 
اپنے تخت ِ سلیمان و قاف ِ فلک مرتبت لے کے چلتا ہُوں 
بے چارگان ِ زمانہ مِری چال کی تمکنت سے ہیں نالاں 
وقار آفریں اور تناو رسیدہ نگاہوں کو ہر آدمی پست و کم تر دِکھائی پڑے
لوگ میرے لیے اجنبی ہو چکے
دُور دیسوں کی مخلُوق ٹھہرے
بدن کا خُمار اپنے جوبن پہ ہے کِس لیے ؟
عِلم مجھ کو نہیں 
اِس کا شاید کہیں ہو کوئی عامیانہ جواز 
ڈھونڈ پاؤُں تو مَیں اِکتفاوں گا بس ایک کُہنی پَہ
"دمڑی کی بڑھیا ' ٹکا سَر منڈائی "
مِرے دل کی نرمی کے دَر کُھل چکے ہیں 
ملایم ہین افکار
سارے گراں حادثے کَور ماضی میں آسُودگی پا چکے 
زخم تازائیں ایسے کہ جس سے اذیّت کے 
میرے ادراک میں جا گُزینیں !
تصوُّر تھکا دیتی محنت کی تکلیف دہ ہے مجھے 
ایسے ماحول میں سانس لینا ہے
جس میں غم خوب صورت لبادے میں مستُور
میرے شب و رُوز کا ترجماں بن گیا ہو
حقیقت پَرے روشنی ' دُور دیسوں کی خُوش بُو مجھے بھا رہی ہے
مِرا ذہن افسانوی پیکروں دِل لُبھاتے پری زاد گاں کی اسیری سے خوش ہے
مِری رُوح میں تازگی آ چکی ہے
حقیقت سراے میں لمحے بِتانے کا اِمکاں نہیں 
اپنے تخت ِ سلیمان و قاف ِ فلک مرتبت سے اتر کر
زمانے کو اِک آن دیکھوں تو چاروں طرف 
خوش نصیبی کے جمگھٹ ' مَسرّت کے لشکر ' قرینوں کے چوپال پاؤُں 
مَیں اپنی نفاست کو اپنے لیے اجنبی ہوتا دیکھوں 
دَما دَم بدن مست سُتھرائی بے کار و بے ہُودہ نکلے
اگر اِن کی رُوحوں میں جھانکیں تو شاید
خلفشار ِ قاف ِ فلک مرتبت ان میں شدّت سے ہو
اپنے تخت ِ سلیماں سے نیچے کی دُنیا کو دیکھیں تو جانیں 
کہ محرُومیاں آدمی کا مقدّر رہی ہیں 
اسے اپنے جوہر کے رازوں سے نسبت نہیں 
بکھری اشیاؑ کے ڈھیروں خزانوں کے اندر اُتر کر
حقیقت تلاشی کی محنت سے گزریں 
خُمار ِ بدن سے پرے کے زمانے الگ ہیں 
اِسی دُکھ مین اندر ہی اندر گُھلے
بشاشت بھی پائی تو غم آشنا
ایک پَے چیدہ رستہ تِرے سامنے 
ایک پَے چیدہ رستہ مِرے سامنے 
حقیقت تلاشی کا دریاے شیر 
کسی نے نہ پایا !
تعلُّق کی ندّی میں اترا ہو کون ؟
رشتوں کی دَلدل کو کس نے عبُورا ؟
تعلّق کے اِقرار میں اُس کا اِنکار مخفی رہا
اس کے اقرار میں تِشنگی 
بے خُودی میرے اِنکار مین 
اس کا تکت ِ سلیماں الگ
میرا قاف ِ فلک مرتبت مختلِف 
ایک پَے چیدگی ' سبز رو یئدگی
میرے چاروں طرف 
تیرے چاروں طرف 


Post a Comment