نصیر احمد ناصر
بادل ہیں کہیں اور نہ اشجار نمایاں
منظر میں پرندوں کی ہے اک ڈار نمایاں
اس خوابِ تمنا سے گزر جانا ہی اچّھا
پھرتی ہے یہاں وحشتِ بیدار نمایاں
ہم اہلِ محبت ہیں فقط پیار کریں گے
تیروں کی نمائش ہو کہ تلوار نمایاں
ہر لمحہ کسی طالبِ خود کش کی طرح ہے
ہر لمحہ کسی مرگ کے آثار نمایاں
ٹک دیکھتے رہتے ہیں در و بام، دریچے
تقسیم میں ہو جاتی ہے دیوار نمایاں
اس بار علامت ہے نہ ہے متن میں ابہام
اس بار کہانی کے ہیں کردار نمایاں
ان کو بھی کسی کارِ محبت پہ لگا دو
کچھ لوگ یہاں پھرتے ہیں بیکار نمایاں

Post a Comment