حامد یزدانی
اک شہرِ رنگ و نور اجڑنے کا دکھ بھی تھا
شاخِ نظر سے خواب کے جھڑنے کا دکھ بھی تھا
ہاتھوں کے آسماں پہ دھنک سی تو کِھل گئی
پَر دل میں تتلیوں کو پکڑنے کا دکھ بھی تھا
کچھ تو شکستِ آئینہ، وجہِ ملال تھی
کچھ اپنے خدّ و خال بگڑنے کا دکھ بھی تھا
سینےمیں ایک حبس اُترنے کی دیرتھی
پھر آندھیوں کے زور پکڑنے کا دکھ بھی تھا
حامد، کسی پُرانے شجر کی طرح ہمیں
دھرتی سے اپنے پاؤں اکھڑنے کا دکھ بھی تھا

Post a Comment