اعجاز گل
محور نے آفتاب کے رکھا مدار میں 
گردش رہی زمین کی لیل و نہار میں 
پہلے تو مجھ سے چھین لیا آئنے نے عکس
اب خود سے شرمسار ہے اَٹ کر غبار میں 
لاحاصلی کی بھیڑ میں کیا تذکرہ یہاں 
تُو ہے سرِ قطار یا پیچھے قطار میں 
ٓٓایسا گرا نشیب میں وقتِ زوال جسم
مسکن مرے غرور کا تھا کوہ سار میں 
لمحہ بہ لمحہ ٹوٹ رہا ہے یہ خاک داں 
معدوم ہو رہا ہوں میں اپنے غبار میں 
کترا کے اس طرف سے گزرتی رہی بہار
جو انتظار میں تھے، رہے انتظار میں 
خالی ہے اعتبار سے ہر ظرفِ اعتبار
بے اعتباریاں ہیں بہت اعتبار میں 
اس کو نہ دستیاب تھا وقفہ سکوت کا
میں تو خلل پذیر تھا آوازِ یار میں 

Post a Comment