ابرار احمد
ہر جانب بارش ہوتی ہے
اور خواب اترنے لگتے ہیں
ٹھنڈک لے کر
دہلیز پہ دستک دیتی ہے
چاہت سے پاگل ہوا کوئی
اور دل میں خوشبو پھیلتی ہے
اور شام اترنے لگتی ہے
پھر اندھیارے کی خاموشی میں
آگ سلگنے لگتی ہے
کیوں آگ سلگنے لگتی ہے ؟
وہ آگ جو تیرے باہر ہے
وہ آگ جو میرے اندر ہے
سب جلتا ہے
آواز کے مخزن سے
ہر گوش سماعت تک
لفظوں کی شاخوں ، نظموں کے جنگل میں
اڑتے پرندوں تک
کہساروں سے میدانوں تک
بازاروں سے گلیاروں تک
فردا کے رخ سے تا بہ ابد 
 قبروں سے گھر تک
کپڑوں سے دروازوں تک
 ہر خواب سے
خوشبو کی چوکھٹ تک
جلتا ہے 
 کن دنوں کی راکھ ہے
کانٹے چبھے ہیں آنکھوں میں
اک آگ ہے
دل میں لگی ہوئی
اک آگ ہے ..دل میں بجھی ہوئی

Post a Comment