یوں تو آدمی کئی بارپیدا ہوتا ہے اور کئی بار مرتا ہے لیکن آدمی کی ہر ولادت اور مرگ حافظے کے اوراق پر لکھی نظر نہیں آتی۔وہ دن وہ صبح یا شام دو چار بار کی بات ہی ہوتی ہے۔جب آدمی اپنی نئی ولادت کے عمل کوپورے انسانی معنوں میں روشن ہوتے دیکھتا ہے اور یہ دید یاد کی کتاب میں کسی مقدس ور
ق پر ہمیشہ چمکتی نظرآتی ہے۔ 1957کی مٹیالی شام میں نے اپنی پہلی تخلیق، حیاتیاتی اور دنیوی نہیں روحانی اورمعنوی تخلیق ایک درد بھری پر یقین اور پر اسرار روشنی میں ہوتے دیکھی۔

بزمِ فکروادب منٹگمری ہال تھا۔اس ہال میں پانچ ساڑھے پانچ سوآدمی آسکتے ہونگے۔ اک پچاس ساٹھ آدمی بھر بھیڑ تھی۔ اس شام کے امس میں مشاعرہ کے تماشائیوں کے جسم اور سانسوں کی حرارت کی لو گونج رہی تھی۔میں نویں جماعت کا نحیف و نزار ، پُرشوق وخوفزدہ طالب علم ان ہی لوگوں کی گنتی میں شامل سب سے پیچھے کچھ کھڑے ہوئے لوگوں کے ساتھ دیوار سے لگ کر شاعروں کے پُراسرار فرقے کی آواز سننے کابھوکا کھڑا تھا۔کئی شاعر آئے اور گئے معلوم نہیں کتنا وقت گزرا۔ داد اور بے داد، لوگوں کا پسینہ، رکتی ہوئی ہوا، شاعروں کی مختلف آوازیں ۔ تحت الفظ شاعر، گلوکار شاعر ، نوعمر نوجوان بوڑھے شاعر،مکھیوں کی طرح بھنبھناتی ہوئی لوگوں کی آوازیں۔ ،ٹریفک کے شور کی طرح بھنور بھنور ڈوبتی اُبھرتی آوازیں یہ سب کچھ وقت تھا،
آخر اسی نامعلوم گزرے وقت کے اندر سے ایک نام ابھرا اوراسی نام کی آواز ابھری مجـــید امـــجد تھکی آنکھیں بھجتی توجہ ، سانس گھنے احساس کے ساتھ دائیں سمت سے چل کر بائیں ہاتھ کی جانب ایک ہانپتی کانپتی لرزتی ڈولتی پرچھائیں بڑھی۔ میلی بھوسلی پرچھائیں کچی کمزور، نحیف و ناتواں پرچھائیں ۔ دو لمبی ٹانگیں ،ٹخنوں سے اونچی، استری اور کریز سے بے نیاز سستی نیلی ٹسر کی پتلون میں چُھپی، بہ یک وقت اوپر خلا کی طرف اور نیچے زمین سے بھی نیچے کی طرف بڑھتی۔ شائد چوتھی سمتکی تلاش یا پھر تخلیق میں آگے بڑھتی ٹانگیں۔ تھوڑے تھوڑے آگے کیطرف جھکے کندھوں کے ساتھ لٹکے ہوئے دو سرکنڈوں کی طرح کے سانولے مٹیالے رنگ کے ہاتھ ہال کے دوسرے سرے سے بھی نیم تاباں روشنیوں میں ان ہاتھوں کی نحیف اور لمبی انگلیاں نظر آتی تھیں ۔
اِدھراُدھر دیکھے بغیر پرچھائیں کی لمبی انگلیوں نے مائیک ہاتھ میں لیا مائیک میں سے ایک دھیمی آواز اُبھری '، یہ آواز باہر سے تڑخی ہوئی تھی،مگر باہر سے ٹوٹتی بکھرتی اور نحیف و ناتواں ہونے کے باوجود یہ آواز اندر سے بہت ہی جمی ہوئی تھی۔۔ جیسے اس آواز کی جڑیں چٹانوں کے اندر بہت ہی اندر کسی گہرے پراسرار چشمے کے دل تک پہنچتی ہوں،'

وقت کے گرد آلود امس میں ہال کے خالی اور ساتھ ہی ساتھ اسرار بھرے سناٹے پر اس آواز کے بھنور تیرے۔
جب سے ویرانہ ماضی کے اندھیروں میں کہیں 
رینگتے ازدھوں کی زہر بھری پھنکاریں 
عکس سینہ انساں کی خبر لاتی ہیں 
ہم نے دیکھا ہے یہی کچھ کہ ہر اک دورِ زماں 
برف زاروں سے پھسلتی ہوئی صدیوں کا خروش
کھولتے لاوے میں جلتے ہوئے قرنوں کا دھواں
نردبان سحر وشام کے ساتھ اُٹھتی ہوئی
اس صنم خانہ ایام کی اک اک تصویر
کچھ اگر ہے بھی یہ سب سلسلہ زیست تو ہے
انہی ناگوں کے خم و پیچ بدن کی تصویر!!
ہاں اسی طرح ، سر سطح سواد ایام
بارہا جنبش یک موج کےہلکورے میں 
بہ گئے غول بیاباں کےگرانڈیل اجسام؟
بارہا تند ہوائیں چلیں طوفان ائے
لیکن اک پھول سے چمٹی ہوئی تتلی نہ گری
رودادِ زمانہ)
یہ نظم انسان کی تاریخ بھی تھی اور امجد کی اپنی تاریخ بھی۔ایک تتلی ہی یہ نظم سنانے آئی تھی۔ امجد کی زندگی کی ہستی کی کونسی تندہوائیں اور کونسے تند طوفان،امجد کا تعلق کسی پر اسرار ، نازک پھول سے الگ نہیں کر سکیں۔ اس کا تو مجھے آج تک علم نہیں ہو سکا۔ 
اتنی بات اسی لمحے میں سمجھ آگئی تھی کہ اس شخص کی ذات کے اندر بہت ہی اندر بہت ہی دور گلابوں کا ایک باغ ہے۔اس آدمی کے اندر اور باہر چاروں طرف گلیشیر، کھولتے لاوے، ناگوں کا ناچ، ازدھوں کی زہر بھری پھنکاریں ،تند ہوائیں اور بے رحم طوفان ہیں۔ مگر اس آدمی کا گلابوں سے رشتہ اٹوٹ ہے اور اٹوٹ رہے گا۔
نظم ختم ہوگئی ۔ سناٹے کو اور گہرا اور دبیز کرتی آواز اپنی سمت واپس لوٹ گئی۔
پرچھائیں نے مائیک سے اتر کر بائیں سے دائیں سمت سفر شروع کیا۔ اس پرچھائیں کے کسی ایک جگہ پہنچنےاور رکنے سے پہلے ہی میں ہال سے نکل آیا۔
باہر درختوں اور گھاس اور کھمبوں اور مکانوں اور سڑک پر سوتے گوشت کے ڈھیروں میں سے ہوکر نہیں معلوم کب اور کیسے گھر آیا۔ وقت کی کہانی سنانے والی پرچھائیں ۔ میرے سامنے میری روح کے پچھواڑے سے اور اوپر سے اور دائیں اور بائیں ۔ہرطرف سے میری طرف چل رہی تھی۔ میں اس پرچھائیں سے اس طرح بھر 
گیا تھا کہ خود سانسوں کی لہروں کی جگہ بھی اس پرچھائیں کی لہریں تھیں۔یہ پرچھائیں نظمیں لکھتی تھی۔یا خود ایک نظم تھی مجھے معلوم نہیں۔ ساری نظمیں اسی ایک بڑی نظم کی پرچھائیاں ہیں۔ یہ پرچھائیں صبح کے وقت اکیلی فرید ٹاؤن کی سڑکوں پر اور کالج کی روشوں پر اور نہر کے کنارے سیر کرنے نکلا کرتی تھی۔مجھے یوں لگتا ہے کہ میں ایک آئینہ ہوں (یہ آئینہ اسی پرچھائیں کے عکس سے چھلک رہا ہے۔
کالج کی روشیں ،فرید ٹاؤن کی سڑکیں اور نہر کاکنارہ ۔ یہ سب کے سب آئینے ہیں یہ سب آئینے اسی پرچھائیں کے عکس سے چھلکتے ہیں۔
لیکن 11مئی کو وہ پرچھائیں ٹہلتی ٹہلتی کسی اور سمت نکل گئی ہے ۔اس پرچھائیں کے مختلف عکس امجد کی بہت سی نظمیں اور غزلیں ہیں ۔ مگر خود یہ پرچھائیں وہ نظم تھی جو ابھی مکمل نہ ہوئی تھی۔اس نظم کی تکمیل ارضی آئینوں کے سمندر میں ممکن نہ تھی۔ چنانچہ دوام کے بور سے ابدی جنتوں کا سفر بھی اس نظم کے سفر کا حصہ بننا تھا ۔ چانچہ ایک نامکمل نظم ابھی کہی جارہی ہے۔ مکمل ہو رہی ہے۔ مجھے معلوم نہیں یہ کبھی مکمل ہوگی بھی یا نہیں شائد کبھی نہیں ۔یہی بات اس نظم کو دوسری ساری نظموں سے علیحدہ اور بلند کرتی ہے ۔ کبھی کبھی درختوں کی چھاؤں میں، بارش کے پانیوں میں ، نیم مستور نیم برہنہ سڑک کے بدن پر جب دھوپ کی لہریں آپس مٰیں پراسرار سر گوشیاں کرتی ہیں تو مجھے ''سورج کے سیال سمندر''
عمروں کے اس معمورے میں، ہے کوئی ایسا دن بھی جو
روح میں ابھرے،پھاند کے سورج کے سیال سمندرکو
کے اسطرف لکھے جانے والے مصرعوں کی لہریں ، اپنی روح میں چلتی سنائی دیتی ہیں ۔ایک دن میری پرچھائیں وہ پرچھائیں جسکی کہانی کے کچھ لفظوں کی تصویر میں دیکھنا اور دکھانا چاہ رہا ہوں ۔ وہ پرچھائیں جس نے مجھے1957 میں وقت کی کہانی سنائی تھی ۔نہر کے کنارے سیر کرنے آئی، پر چھائیں کی آنکھوں میں نہر کا کنارہ قتل گاہ کا منظر ابھرا۔
بیس ہزار مین بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار
چھاؤں چھڑکتے ۔خوشیاں بانٹتے، بورلدے چھتنار
اور آخر میں
مجھ پر بھی اک کاری ضرب اک اے آدم کی آل
یہ آدمی۔ یہ پرچھائیں اپنے ہم نام شخص کالج کے پرنسپل امجد کے ساتھ بھی صبح کی سیر مٰیں شامل ہوا کرتی تھی۔ یہ نظم سننے کا بعد پرنسپل آغا امجد علی نے پوچھا۔ امجد صاحب ! آخر نہر کے کنارے کٹے ہوئے پیڑ ہم نےبھی دیکھے تے اور اس وقت آپ بھی ہماری نظر میں تھے ۔مگر ہم نے ان کٹے پیڑوں میں بھی کوئی غیر معمولی بات محسوس نہ کی تھی اور نہ اس وقت آپ پرکوئی غیرمعمولی اثر نظر آیا تھا۔مگر یہ نظم کسی اور ہی بات کی شہادت دے رہی ہے۔
شاعرنے اس بات کو سنا ۔ ہر بات کیطرح اس وقت کا جواب بھی ایک معصوم ، بےضرر ،سادہ اور طفلانہ مسکراہٹ تھی۔
جیسے یہ مسکراہٹ کہتی ہو، کہتے تو آپ بھی ٹھیک ہیں ۔مجھے کسی بات کا کچھ اچھی طرح پتا نہیں ہے۔یہ آدمی باہر سے ایک بے خبری کی زد میں آیا ہوا، ججھکتا شخص نظر آتا تھا۔ ایک شریفانہ معذرت طلبی ایک اعترافِ جرم کی تصویرمگر کہیں اندر بہت اندرشائد سب کی روحوں کے ۔
پچھواڑے یہ آدمی خوفناک حد تک دوربینی اور خوردبینی آنکھ رکھنے والا شخص تھا۔
دو رویہ ساحل دیوار اور پس دیوار
اک آئینوں کا سمندر ہے کون دیکھے گا
زندگی کی دو رویہ دیوار کے اندرچلتے ہوئے پسِ دیوار رواں آئینوں کے سمندر میں کھیلتی دھوپ کی لہروں سے باتیں کرنے کے لیے امجد کی آہستہ رو سائیکل کا پیہہ مڑ گیا ہے ۔ میرے پاس اورمراتب اختر کے پاس وہ سائکل نہیں جسکی پرچھائیں کسی شام ادھر مڑ جائے۔ جہان بیٹھ کر امجداب بھی چپکے چپکے خوش سلیقہ غم میں چھپ کر نفاست سے مسکراتے ہوئے چائے پیتے ہونگے۔ اب ہم سٹیڈیم ہوٹل جاتے ہیں وہاں بیٹھنا دنیا کا سب سے مشکل کام بن جاتا ہے ۔ جی کرتا ہے کوئی پراسرار جادوگر آئے وہ ہمین اور سارے سٹیدیم ہوٹل کو اور امجد صاحب کے ساتھ ہمیں چائے پلانے والے طفیل کو ساہیوال کی زمین سے کاٹ کر اور وہاں جا کر پیارسے رکھدے جہاں امجد صاحب بیتھے ہوئے ہیں ۔ جہاں امـجد'ایـک پرچھایئں ' ایک نظم کی تکمیل ہو ر ہی ہے۔
میں نے امجد صاحب کو1957 سے1974تک اپنے ہر خلیے کی انکھ میں لہو کی ہر بوند کی پتلی میں عکس در عکس دیکھا ہے۔
مگر یہ ساری دید میرے لیے زیادہ سے زیادہ پردہ بنتی چلی گئی ہے۔شائد زندگی کی دو رویہ دیوار کے پار انہیں جا کر دیکھوں ،ان کے ساتھ بیٹھ کر چائے پیؤں۔
ان سے انکی وہاں لکھی ہوئی نظمیں سنوں تو میرا دیکھنا ۔ دیکھنا بن سکے ۔ میری باصرہ اپنے آپ کوباصرہ کہتے ہوئے شرمندہ نہ ہو۔
(بشکریہ افتخار شفیع)

Post a Comment