عشق سچا ہےتو کیوں ڈرتے جھجکتے جاویں
آگ میں بھی وہ بُلائے تو لپکتے جاویں 
کیا ہی اچھاہو کہ گِریہ بھی چلے ، سجدہ بھی
میرے آنسو ترے پیروں پہ ٹپکتے جاویں 
تُو تو نعمت ہے سو شُکرانہ یہی ہےتیرا
پلکیں جھپکائے بنا ہم تجھے تکتے جاویں
دم ہی لینے نہیں دیتے ہیں خدوخال ترے
دم بہ دم اور ذرا اور دمکتے جاویں ۔۔۔
توڑنے والے کسی ہاتھ کی اُمید پہ ہم
کب تلک شاخِ غمِ ہجر پہ پکتے جاویں ؟
شیرخواروں کے سے بےبس ہیں ترے عشق میں ہم
بول تو سکتے نہیں ، روتے بلکتے جاویں 
اب تو ٹھہرا ہےیہی کام ہمارا شب و روز
دُور سے دیکھیں تجھے اور بہکتے جاویں 
عشق زادوں سے گذارش ہےکہ جاری رہے عشق
بَکنے والوں کو تو بَکنا ھے ، سو بَکتے جاویں 
اُس کے رُخسار بھی شعلوں کی طرح ہیں ، یعنی
دہک اُٹھیں تو بہت دیر دہکتے جاویں 
فارس اک روز اِسی عطر سے مہکے گا وہ شخص
آپ چُپ چاپ فقط جان چھڑکتے جاویں 

1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں