اعتبار ساجد
  رویے اور فقرے اُن کے پہلو دار ہوتے ہیں مگر میں کیا کروں یہ میرے رشتہ دار ہوتے ہیں مرے غم پر اُنہیں کاموں سے فُرصت ہی نہیں ملتی مری خوشیوں میں یہ دیگوں کے چوکیدار ہوتے ہیں دلوں میں فرق پڑ جائے تو اس بے درد ساعت میں دلیلیں، منطقیں اور فلسفے بے کار ہوتے ہیں جنہیں صبر و رضا کی ہر گھڑی تلقین ہوتی ہے وہی مظلوم ہر تکلیف سے دو چار ہوتے ہیں بہت قابو ہے اپنے دل پہ لیکن کیا کیا جائے جب آنکھیں خوبصورت ہوں تو ہم لاچار ہوتے ہیں غزل کے شعر خاصا وقت لیتے ہیں سنورنے میں یہ نخرے باز بچے دیر سے تیار ہوتے ہیں اُدھر کا رخ نہیں کرتا کوئی آسودہ دل ساجد جہاں بیٹھے ہوئے ہم نوحہ گر دو چار ہوتے ہیں

Post a Comment