نصیر احمد ناصر

تمہارے لیے میں وہ سب کچھ کروں گا
جو دنیا میں اپنے لیے بھی نہیں کوئی کرتا
مگر میں کروں گا تمہارے لیے
پارک کے سارے پھولوں کو دیکھوں گا
توڑے بنا ان کی تعریف کرتا رہوں گا
گھنے بادلوں کو بھلا کون سر پر اٹھاتا ہے اتنی لگن سے
مگر میں اٹھائے پھروں گا
ذرا بھی نہ اکتاؤں گا بارشوں سے
سمندر کو بھرتا رہوں گا
میں آنکھوں کے نمکین پانی سے
ساحل پہ لہروں کی توشک بچھا کر
جزیروں کی جانب ہوائیں روانہ کروں گا
انہیں تھوڑا نزدیک آکر پسرنے کا پیغام بھیجوں گا
اونچے پہاڑوں کو ہموار رستوں کے دونوں طرف لا کے رکھ دوں گا
پیڑوں کو اترائیوں پر عمودی لگاؤں گا
دریا کو ایسے گزاروں گا پل کے تلے سے
کہ پانی کو اپنی روانی پہ خود پیار آئے گا،
پل کے ستونوں سے ٹکرانا اچھا لگے گا
کسی سرمدی خواب کی بارگہ میں
اگر باریابی ہوئی تو
تمہارے لیے میں مناظر سبھی مانگ لوں گا
طلسمی جہانوں کو کھوجوں گا
گزرے زمانوں سے گزروں گا
آگے کا سوچوں گا
سب کچھ کروں گا
کسی سے نہ ہر گز ڈروں گا
تمہارے لیے میں جیوں گا
تمہارے لیے ہی مروں گا
کسی اچھے ہوٹل میں کھانا بھی کھائیں گے
گپیں لگائیں گے
گھو میں پھریں گے
وہ سب کچھ کریں گے جو ایسی ملاقات پر لوگ کرتے ہیں
فی الحال لیکن
بڑی بھوک سی لگ رہی ہے
چلو سامنے کی دکاں سے " شاورما " ہی کھائیں

1 تبصرے

  1. رضا صدیقی صاحب، نظم کی اشاعت کا شکریہ۔ درج ذیل سطروں میں کچھ کمپوزنگ کی غلطیاں ہیں، ممکن ہو تو درست فرما دیجیئے، ممنون ہوں گا۔ درست سطریں یوں ہیں:
    میں آنکھوں کے نمکین پانی سے
    ساحل پہ لہروں کی توشک بچھا کر
    ( نصیر احمد ناصر )

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں