ضیا حسین ضیا
نقش جاگے ، نہ کسی بھید کا سامان ہوا
رنگ سے اور بھی تصویر کا نقصان ہوا 
آج تاریخ نہیں ۔۔کوچہِ تخریب میں چل
کون بوسِیدہ زَمانوں کا قلم ران ہوا
کس کو دستار سے سولی کا سفر یاد نہیں
کون اس شہر ِ ملامت کا ثنا خوان ہوا
اب تو تعبیر بھی ملتی ہے تو چونک اٹھتا ہے
ایک ہی خواب جو مدت سے پریشان ہوا
اَب تو ہنسنےسے بھی موسم کا پَتا مِلتا نہیں
رَنج کی فصل کا اَب کون نگِہبان ہوا 
اَب لکیروں کا تماشا ہےگزرگاہ ِ صراط
کیا ہتھیلی پہ مِری حشر کا اِعلان ہوا
میرا تحریر سے اُٹھنے کا اِرادہ ہی نہیں
کون ہےوقت سے پہلے جو قلمدان ہوا 
خواب میں خواب کے اِحسان اٹھائے میَں نے
رَفتہ رَفتہ ہی تِرے ہجر میں آسان ہوا 
مَیں سر ِ بزم ضیاء خلوت ِ جاں پاتا ہوں 
راستہ کھونے پہ آیا ہےتو ، پہچان ہوا

Post a Comment