کم کہنے، اچھا کہنے اور اپنا کہنے کی ہدایت دینے والے تنہائی پسند ممتاز شاعر محبوب خزاں کراچی میں انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 83 سال تھی۔
محبوب خزاں کااصل نام محمد محبوب صدیقی تھا۔ وہ ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے ضلع بلیہ کے ایک موضع چندا دائر کے ایک معزز 

گھرانے میں یکم جولائی 1930ء کو پیدا ہوئے۔
12 برس کی عمر میں ان کے والد انتقال کر گئے اور ان کی تعلیم و تربیت بڑے بھائی محمد ایوب صدیقی نے کی۔ انھوں نے 1948 میں الہ آباد یونی ورسٹی سے گریجویشن کیا اور پاکستان آگئے، یہاں انھوں نے سول سپیریئر سروسز (سی ایس ایس) کیا۔
پہلی تقرری لاہور میں اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ جنرل کی حیثیت سے ہوئی پھر ڈھاکہ بھیج دیے گئے جہاں ڈپٹی اے جی پی آر کے عہدے پر فائز رہے، بعد ازاں کراچیلوٹے اور پھر تہران کے سفارتی مشن میں متعین کیے گئے۔
تہران میں قیام کے دوران معروف شاعر نون میم راشد سے ان کی خاصی قربت رہی۔ بعد میں وہ کراچی میں اے جی پی آر رہے اور یہیں سے ریٹائر ہوئے۔


ان کا پہلا شعر مجموعہ ’اکیلی بستیاں‘ قمر جمیل کے ’خواب نما‘ اور محب عارفی کے ’چھلنی کی پیاس‘ کے ساتھ شائع ہوا۔ غالباً یہ مجموعہ 1963 میں کراچی سے شائع ہوا تھا۔
وہ انتہائی کم گو شاعر اور مطالعے سے بے حد شغف رکھنے والے لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے۔
ان کے کئی اشعار اور غزلیں بہت مقبول ہوئیں۔
میں تمھیں کیسے بتاؤں کیا کہو
کم کہو، اچھا کہو، اپنا کہو
ایک محبت کافی ہے
باقی عمر اضافی ہے
کہتا ہے چپکے سے یہ کون
’جینا وعدہ خلافی ہے‘
اب یاد کبھی آئے تو آئینے سے پوچھو
محبوب خزاں شام کو گھر کیوں نہیں جاتے
میں کہیں اور کس طرح جاؤں
تو کسی اور کے علاوہ نہیں
چاہی تھی دل نے تجھ سے وفا کم بہت ہی کم
شاید اسی لیے ہے گلہ کم بہت ہی کم
تھے دوسرے بھی تیری محبت کے آس پاس
دل کو مگر سکون ملا، کم، بہت ہی کم
جلتے سنا چراغ سے دامن ہزار بار
دامن سے کب چراغ جلا، کم بہت ہی کم
یوں مت کہو، خزاں کہ بہت دیر ہو گئی
ہیں آج کل وہ تم سے خفا کم، بہت ہی کم
محبوب خزاں کی ایک مشہور غزل
حال ایسا نہیں کہ تم سے کہیں
ایک جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں
زیرِ لب آہ بھی محال ہوئی 
درد اتنا نہیں کہ تم سے کہیں
سب سمجھتے ہیں اور سب چُپ ہیں
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں
کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیا ہے
ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں
اب خزاں یہ بھی کہہ نہیں سکتے
تم نے پوچھا نہیں کہ تم سے کہیں
(بشکریہ انور سین رائے)

Post a Comment