مہذب اقوام میں منصب جتنا اونچا اور طاقت کی جتنی بہتات ہو ذمہ داری اتنی ہی زیادہ اور حساب اتنا ہی سخت ہوتا ہے۔ پر پاکستان کی تاریخ میں جسے جتنی زیادہ طاقت ملی اس نے نا ہی اس کا ناجائز استعمال کیا اورحساب کتاب میں تو ہم ازل سے ہی کمزور واقع ہوئے ہیں۔ 
بالآخر وزیرِ اعظم کم وزیرِ دفاع نواز شریف صاحب نے جنرل کیانی سے مشاورت کے بعد پاکستان کے نئے چیف آف آرمی سٹاف کے لئے لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف کا چناؤ کر لیا۔ بے شک اس عہدے پر تقرری کے لئے جنرل راحیل شریف سینئر ترین جنرل نہیں تھے تو نواز شریف صاحب نے الیکشن سے پہلے کئے گئے اپنے بیان سے انحراف کرتے ہوئے جنرل ہارون اسلم کو نظر انداز کیا اور ایک مرتبہ پھر اپنی دانش پر بھروسہ کر کے راحیل شریف کا انتخاب کیا ہے۔ خدا کرے کہ یہ فیصلہ پاکستان کے حق میں درست ثابت ہو! جنرل ہارون اسلم کو نظر انداز کرنے کی بنیادی وجہ صرف یہی ہو سکتی ہے کہ9 199میں نواز گیا ہے تو یہ بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ شاید جنرل کیانی کی نظر میں بھی ہارون صاحب اس منصب کو سنبھالنے کے لئے موزوں شحصیت نہیں ہیں!!!بہر حال میرٹ حکومت کا تختہ الٹنے میں پرویز مشرف کا ساتھ دینے والوں میں یہ 
صاحب پیش پیش تھے۔ مزید یہ کہ کیونکہ یہ فیصلہ جنرل کیانی کی مشاورت سے کیا پر کئے گئے فیصلے مستقبل میں غلط بھی ثابت ہوں تو کم از کم یہ تسلی رہتی ہے کہ فیصلہ سازی مکمل میرٹ پر کی گئی تھی بصورتِ دیگر اپنے آپ کو کوسنے سے زیادہ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔پچھلی مرتبہ میرٹ پر عقل کو ترجیح دی تھی تو نتیجہ حکومت کے خاتمے اور دیس نکالے کی شکل میں کئی سال بھگتنا پڑا تھا! ویسے یہ امید تو رکھنی چاہیے کہ پاکستان میں جمہوریت اتنی پروان چڑھ گئی ہے کہ فوج اور سیاست دان اپنی اپنی جگہ پر رہ کر کام کرنے کو تیار دکھائی دیتے ہیں۔ کیانی صاحب نے اپنے چھ سالہ دور میں جس انداز 

سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی، فوج کے ادارے کو سیاست سے دور رکھا، جمہوریت کو تقویت بخش کر اسے پنپنے کا موقع فراہم کیا ہے وہ بے حد قابلِ ستائش اور آنے والے جنرل صاحب کے لئے مشعلِ راہ ہے۔
راحیل شریف صاحب بظاہر مناسب چوائس معلوم ہوتے ہیں! ان کا تعلق ایسے فوجی گھرانے سے ہے جس نے میجر شبیر شریف شہید (نشانِ حیدر) جیسے سپوت دھرتی کو دیے، یہاں یہ دھرانا بھی ضروری ہے کہ راحیل شریف صاحب میجر شبیر شریف شہید کے چھوٹے بھائی ہیں!!! ان کی والدہ پاکستان کے تمام اعتدال پسند عوام کی طرح پاکستان سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ چاہتی ہیں اور عام طور پر ماں کی خواہش کسی بھی بیٹے کے لئے کافی حد تک اہمیت رکھتی ہے!
پاکستان کے پندرھویں سپہ سالار سے قوم کو بہت امید ہے کہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت ذمہ دارہاتھوں میں منتقل ہونے جا رہی ہے۔اس وقت پاک سر زمیں کو بیرونی دشمنوں سے کہیں زیادہ خطرہ اندرونی دشمنوں سے ہے! یقینا راحیل صاحب پاکستان کو لاحق اس خطرہ سے بخوبی واقف ہوں گے۔اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف برسوں سے جاری جنگ کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی جلد ہی انہی پر عائد ہو گی جس کے لئے جنرل صاحب کو ذہنی طور پر تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ سپہ سالارِ پاکستان کے منصب پر فائز ہونا ہر فوجی کا خواب ہوتا ہے پر موجودہ حالات میں یہ منصب کانٹوں کی سیج سے بڑھ کر تکلیف دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ 
کیانی صاحب نے اپنے دور میں جذبات کو پسِ پشت ڈال کر وسیع تر قومی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے فوج کا بحیثیت ادارہ جمہوریت پسند اور دہشت گرد مخالف مائنڈ سیٹ تخلیق کرنے میں کلیدی کردار ادا کیااور اسے ایک قومی ادارے کے طور پر وژن اور سمت بھی دی ہے تو معقولی مکتبہ فکر یہ آس لگانے میں حق بجانب ہے کہ راحیل شریف صاحب اس وژن اور مائنڈ سیٹ کو مزید پروان چڑھانے میں پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ راحیل صاحب کو جو مسائل فوراٌ سے پہلے درپیش ہونے والے ہیں ان میں صفِ اول دہشت گردی اور اس سے جڑے معاملات ہیں جن میں مستقبل قریب میں پاک سر زمیں پر دندناتے دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن بھی ہو سکتا ہے!
فی الوقت راحیل صاحب کی شخصیت سے زیادہ لوگ واقف نہیں ہیں پر جب کوئی شخص اپنے عہدے یا کام کے باعث لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے تو شخصیت آشکارا ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔پاکستان کے پارہ کی طرح حرکت میں رہنے والے حالات اور سیکیورٹی کے معاملات میں ان کی شخصیت اور سوچ کی سمت جلد ہی نظر آنے لگے گی پر تب تک امید ضرور رکھنی چاہیے کہ راحیل صاحب جمہوریت پسند، معتدل مزاج، ریاست پرست اور دہشت گرد مخالف سوچ کے حامی ہیں کیونکہ بہر طور یہ ڈر تو ہمہ رقت تمام افراد خصوصاٌ حکومتی عہدیداروں کے ذہنوں میں کہیں نہ کہیں ہچکولے کھاتا رہتا ہے کہ سپہ سالار ہے تو آخر سپہ سالار اور پاکستان کی طاقتور ترین شخصیات میں سے ایک! ایک ایسی ہستی اور ایسا منصب جس کے ہاتھ میں دنیا کی پانچویں سب سے بڑی فوج کی کمان ہے۔ یہ بھی امید رکھنی چاہیے کہ راحیل صاحب کیانی صاحب کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کی خدمت کر کے قوم کے سامنے سرخرو ہوں گے اور فوج کی ساکھ میں اضافہ کا موجب ہوں گے۔ کیانی صاحب کی مثال بار بار دینے کی ضرورت اس لئے پیش آ رہی ہے کہ انہوں نے تمام تر قوت، طاقت اور مواقع ہونے کے باوجود کسی طرح اور کسی بھی وقت اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا اور اپنی تمام تر ذمہ داریاں احسن انداز یں
نبھائیں۔ بلاشبہ ان کی شخصیت آنے والے جرنیلوں کے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔ 


1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں