شاعری کم و بیش پینتیس برس سے میری ہمسفر ہے ۔اس نے لڑکپن میں میرا ہاتھ تھاما توسفر کا آغازہوا۔یہ مجھے گلیوں گلیوں لیے پھری۔کبھی کی یادوں کے سہارے ۔کبھی کسی کے تقریب کے بہانے۔کبھی مشاعرے یا کسی کانفرنس میں ۔اور کبھی کسی کتاب کی تعارفی تقریب میں۔ملتان سے میں جتنی بار بھی باہر گیا ۔زیادہ تر شاعری ہی اس کا وسیلہ بنی۔صحافت کے ساتھ منسلک ہونے کے ناطے میرے لئے ملتان سے نکلنا کبھی بھی آسان نہیں رہا ۔اخبارات کے ڈیسک پر طویل ڈیوٹی کے دوران چھٹی لینا ہمیشہ مشکل ہوتا تھالیکن شاعری مجھے جب بھی آواز دیتی میں انتہائی کڑے حالاتِ کار کے باوجود اس کے ساتھ سفر پر نکل جاتا۔اس مرتبہ شاعری نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے دیارغیر لے گئی۔29اکتوبر کی صبح دوحہ ایئرپورٹ پر قدم رکھا تو ماضی کے بہت سے سفر 
نگاہوں میں گھوم گئے۔ایک نیا منظر ،نئے راستے اورنئے لوگ میرے منتظر تھے۔ 28اکتوبر کی شب لاہورایئرپورٹ سے 

جناب امجد اسلام امجد ،محترمہ نثار عزیز بٹ ،برادرم داؤدملک اور ڈاکٹر نبیلہ داؤدملک کے ہمراہ ایک خوبصورت سفر کا آغاز ہوا۔منزل ہماری دوحہ تھی اورتقریب کا اہتمام مجلس زبان وادب دوحہ قطر نے کیاتھا۔ڈاکٹر داؤدملک پاکستان میں مجلس کے کوارڈینیٹر ہیں ۔ایک بہت خوش مزاج اور باذوق شخصیت ۔اور جس سفر میں امجد اسلام امجد جیسی باغ و بہار شخصیت ساتھ ہو وہ خوشگوار ہی نہیں بہت سہولت والا بھی ہوتا ہے کہ امجد صاحب کی وجہ سے راستے کی بہت سی رکاوٹیں خود بخود ختم ہو جاتی ہیں ۔بورڈنگ سیے امیگریشن کے مراحل تک قدم قدم پر ان کے چاہنے والوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھوں لیا اور ان کے ساتھ ہمارے لئے بھی یہ مراحل آسان ہوگئے ۔ مجلسِ اردو زبان و ادب دوحہ 1996سے اردو شعر وادب کے فروغ کیلئے سرگرم ہے۔دوحہ ،قطر میں اس تنظیم کی بنیادمصیب الرحمن نے رکھی اور ان کے بعد اس کے روح رواں محمد عتیق ہیں۔اس تنظیم کے زیراہتمام ہرسال پاکستان اوربھار ت سے تعلق رکھنے والے ایک ایک ادیب کو ’’عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ‘‘ سے نوازاجاتا ہے اور اگلے روز عالمی مشاعرہ منعقد ہوتا ہے جس میں پاکستان اوربھارت کے علاوہ دنیا بھر سے شعراء کرام شریک ہوتے ہیں۔اس مرتبہ سالانہ ایوارڈ کا حقدارپاکستان سے نامور ناول نگار محترمہ نثار عزیز بٹ کو قراردیاگیا جبکہ بھارت سے یہ اعزاز معروف افسانہ نگار ،محقق اورصحافی جناب نند کشور وکرم کے حصے میںآیا۔ہم انہی تقریبات میں شرکت کیلئے دوحہ آئے تھے۔ ایئرپورٹ پرمجلس کے چیئرمین محمد عتیق اور انتظامی کمیٹی کے اراکین فرقان پراچہ،شوکت علی ناز اور امین موتی والا ہمارے استقبال کیلئے موجودتھے۔ان سب کے ساتھ اگرچہ ہماری یہ پہلی ملاقات تھی لیکن شاعری اور ادب کا سب سے بڑافائدہ تویہی ہے کہ آپ خواہ اجنبی ہی کیوں نہ ہوں آپ کے درمیان اجنبیت نہیں ہوتی۔آپ کی تحریریں آپ کا تعارف ہوتی ہیں۔اپنی غزلوں،نظموں اورافسانوں کے ذریعے آپ ایک دوسرے سے مکمل طورپر متعارف ہوتے ہیں اور فیس بک نے تو اجنبیت کی رہی سہی دیواریں بھی مسمار کردیں۔سو رسمی سلام دعا کے بعد ہم سب ایک دوسرے سے یوں ہمکلام ہوئے کہ جیسے برسوں سے آشنا ہوں۔پہلا دن فراغت اور آرام کادن تھا۔ہم رات بھر کے جاگے ہوئے ضرور تھے لیکن جب آپ کسی نئے دیار میں جاتے ہیں تو تھکاوٹ اور نیند کے باوجود آپ کا سونے کو دل نہیں چاہتا کہ آپ کم سے کم وقت میں اس دیار کے زیادہ سے زیادہ راستوں پر قدم رکھنا چاہتے ہیں اوربہت سے مناظر کو کہیں سرسری اور کہیں بہت تفصیل کے ساتھ اپنے آنکھوں میں اتارنا چاہتے ہیں۔ ایسی کانفرنسوں یا مشاعروں میں جاگنے اورجگانے میں ایک سبب وہ دوست بھی ہوتے ہیں جن کے ساتھ کبھی پہلی مرتبہ اور کبھی برسوں کے بعد ایسی ہی تقریبات میں ملاقات ہوتی ہے۔جیسے کراچی سے آئے ہوئے سلیم فوزکے ساتھ میری ملاقات کوئی 12،13برسوں کے بعد ہوئی۔ہم پہلی بار جوانی میں ملے تھے اور اب ملاقات ہوئی تو میرے بالوں میں وقت کی بہت سی دھول تھی لیکن سلیم فوز تو بالکل ویسے ہی تھے اپنی شاعری کی طرح خوبصورت۔ہوٹل میں مہمانوں کی آمد کاسلسلہ جاری تھا۔سب سے پہلے شاید ہم ہی پہنچے تھے۔بھارت سے آنے والے مہمانوں نے شام بلکہ رات کو پہنچنا تھا ۔بحرین ،کویت،سعودی عرب اور امریکہ سے بھی شعراء کرام کی آمد وقفے وقفے سے جاری رہی۔مجلس کے چیئر مین محمد عتیق خود تمام مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے ۔تقریب کے تمام انتظامات انہی کی نگرانی میں جاری تھے وہ سب کو ہدایات بھی دیتے اور ساتھ مہمانوں کی سہولتوں کا بھی خیال رکھتے۔تقریبات کے چار دنوں میں انتظامی کمیٹی کے اراکین کے ساتھ ہم نے انہیں مسلسل متحرک دیکھا۔پاکستان سے ڈاکٹر پیرزادہ قاسم ،ڈاکٹر انعام الحق جاوید بھی مشاعرے میں شرکت کیلئے آئے۔بھارت سے آٰئے مہمانوں میں نند کشور وکرم،پروفیسر شافع قدوائی،گلزار دہلوی،پروفیسر انور جلالپوری،ڈاکٹر نسیم نکہت،ڈاکٹر مشتاق صدف سے ملاقات ہوئی۔پروفیسر شافع قدوائی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کے سربراہ ہیں سو ان کے ساتھ ادب اورتنقید کے ساتھ ساتھ صحافت کے مختلف پہلوؤں پر بھی تفصیلی بات ہوئی اوراسی گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ وہ نامور ادیب اورصحافی عبدالماجد دریا آبادی کے نواسے ہیں۔سعودی عرب سے آئے ہوئے قمرحیدرقمرسے ملاقات ہوئی تو پروفیسر حسین سحر اور محمد مختار علی کا بھی ذکرہوا۔کویت سے فیاض وردگ اور امریکہ سے الماس شبی مشاعرے میں مدعو تھیں ۔بحرین سے آنے والے ریاض شاہد کے ساتھ اگرچہ ہماری پہلی ملاقات تھی لیکن گفتگو کچھ اس بے تکلفی سے ہوئی کہ جیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے کوجانتے ہوں ۔ایک خوبصورت شاعر اور بہت سادہ طبیعت کے انسان۔لگتا ہی نہیں تھا کہ مسلسل ہنگاموں سے نمٹنے والی بحرین پولیس سے وابستہ ہیں ۔اور سہ پہر کے وقت فون کی گھنٹی بجی تو جیسے میں دوحہ میں بیٹھا بیٹھاملتان پہنچ گیا۔اور ایسا کیوں نہ ہوتا دوسری جانب فرتاش سید تھے جوہمارے خطے کی پہچان ہیں اور اب دوحہ کی شان ہیں۔دوحہ میں اردو پڑھاتے ہیں اور اپنی خوبصورت شاعری کے ذریعے دلوں میں جگہ بناتے ہیں ۔ملتان مجھے فرتاش سیدنے ہی نہیں فرقان پراچہ اور اعجاز حیدرنے بھی یاد دلایا۔فرقان پراچہ کاتعلق ملتان سے ہے ۔ان سے گفتگو شروع ہوئی تعارف کا سلسلہ دراز ہوا تو ہمارے کئی دوست بھی مشترکہ نکلے۔ روانگی سے ایک روز قبل اعجاز حیدر کے ساتھ گفتگو کے دوران معلوم ہواکہ وہ سینئر صحافی ملک صفدرکے صاحبزادے ہیں۔ملک صفدرصاحب نوائے وقت میں ایک طویل عرصہ ڈپٹی نیوزایڈیٹر کے طورپر کام کرتے رہے اورصحافت میں جن شخصیات سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ان میں ملک صفدر بھی شامل ہیں۔فرتاش، فرقا ن اور اعجاز کے ساتھ جب بھی ہم کلام یا ہمسفر ہوا ملتان دوحہ میں بھی میرے ساتھ ساتھ رہا۔اور انتظامی کمیٹی کے رکن سید فہیم الدین کاتعلق بھی تواسی وسیب سے ہے۔وہ رحیم یارخان سے تلاش روزگار کیلئے دوحہ آئے ہوئے ہیں۔سلال یوسف کا سخن ور فورم کے حوالے سے ہمارے ساتھ طویل عرصہ سے رابطہ ہے انہیں ہماری آمد کی خبر ملی تو وہ بھی ہوٹل پہنچ گئے ۔سلال ابو حمزہ کے نام سے شاعری کی ڈیزائننگ کرتے ہیں ، خوبصورت اشعار اور غزلوں کو مزید خوبصورت بناتے ہیں ۔اسی طرح بحرین سے آئے ہوئے شیخ زاہد کے ساتھ بہت مختصر مگر یاد رہنے والی ملاقات ہوئی ۔ اگلے روز تقسیم ایوارڈ کی تقریب تھی۔جسے تقریب پذیرائی برائے ایوارڈ یافتگان کا نام دیاگیاتھا۔تقریب کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے کی۔مہمان اعزاز محترمہ نثار عزیز بٹ اور نند کشور وکرم اورمہمان خصوصی امجداسلام امجد اورپروفیسر شافع قدوائی تھے۔نظامت کے فرائض فرتاش سید نے سرانجام دیئے۔مجلس اردو زبان وادب کے چیئرمین محمد عتیق نے تنظیم کے اغراض ومقاصد اور فروغ اردو کے سلسلے میں اس کی خدمات پر روشنی ڈالی۔امجد اسلام امجد نے محترمہ نثار عزیز بٹ اور پروفیسر شافع قدوائی نے نند کشور وکرم کے فن پر اظہارخیال کیا۔خوشی اس بات کی ہوئی کہ اس تقریب کا اصل موضوع اردو زبان تھی۔اردو کے مستقبل کے حوالے سے خدشات ،اس کے فروغ کیلئے عملی اقدامات اس محفل میں خاص طورپر زیربحث آئے اور یہ جان کراطمینان ہوا کہ دیارغیر میں رہنے والے اس زبان کی خدمت میں ہم سے کہیں زیادہ سرگرم ہیں اوراس کے مستقبل کے بارے میں ہم سے زیادہ فکر مند ہیں۔ اگلے روز یعنی 31اکتوبر کو ہمیں عالمی مشاعرے میں شرکت کرنا تھی۔لیکن مشاعرے سے پہلے شوکت علی ناز کے ہمراہ دوحہ کو تفصیل کے ساتھ دیکھنے کا موقع ملا ۔دوحہ کی جگمگاتی رات تو ہمیں پہلے روز ہی فرتاش نے دکھا دی ۔ایرانی مارکیٹ کی فوڈ سٹریٹ پر ہر ملک سے آئے ہوئے سیاح ۔طرح طرح کے کھانوں کی مہک اور اس کے ساتھ ہر جانب پھیلا ہوا شیشے کا دھواں ۔ایک عجب ماحول تھا دوحہ کی خنک رات کا ۔لیکن دوحہ کو دن میں بھی تو دیکھنا تھا ۔سو شوکت علی ناز ہمارے میزبان بھی بنے اور رہنما بھی ۔ہر جانب ترقیاتی کام جاری تھے ۔کہیں بھاری بھرکم کرینیں تو کہیں بلڈوزر ۔۔یوں لگتا تھا سارے شہر کو ازسرِ نو بسایا جا رہا ہے ۔معلوم ہوا کہ 2022 میں یہاں فٹ بال کا ورلڈ کپ منعقد ہونا ہے جس کی تیاریاں ابھی سے جاری ہیں ۔قابلِ دید منظر ساحل سمند ر پر آباد بلند و بالا عمارتوں کا تھا ۔ ٹاورز کا ایک جنگل آباد تھا اور دفنا اس علاقے کا نام تھا ۔اور دفنا سے آگے سمندر کنارے سفارت خانوں کی قطار تھی ۔پاکستان ہوتا تو یہ نو گو ایریا ہوتا ۔ یہاں تلاشی کے لئے ہمیں روکا جاتا ہماری تضحیک کی جاتی ۔لیکن یہاں تو کچھ بھی نہیں تھا ۔بس ہر سفارت خانے کے باہر ایک گارڈ تعینات تھا ۔ اور یہ کتارا ہے۔پرانا دوحہ تو کم وبیش سارا ہی مسمار ہو چکا لیکن یہاں اسی طرز کا ایک شہر بسا دیا گیا ۔اصل میں تو یہ پرانی وضع کی گلیوں اور عمارتوں پر مشتمل ایک ثقافت مرکز ہے ۔کسی عمارت میں شعرو ادب کا مرکز، کہیں لائبریری ۔کہیں فوٹو گرافی کا مرکز تو کہیں ڈرامہ سینٹر۔کہاں رکیں اور کہاں نہ رکیں ۔سرسری بھی یہ سب کچھ دیکھنا ہو تو بہت سا وقت درکار تھا کہ ہر جا جہانِ دیگر بلکہ جہانِ حیرت تھا۔اور ہمیں جلد واپس ہوٹل بھی تو پہنچنا کہ شام ڈھل رہی تھی اور مشاعرے کا وقت ہونے کو تھا ۔جی ہاں وہی مشاعرہ جس میں شرکت کے لئے شاعری ہمارا ہاتھ تھام کر ہمیں اس جہانِ حیرت تک لائی تھی ۔ بلاشبہ وہ ایک یادگار مشاعرہ تھا۔مجلس نے اس کا اہتمام دوحہ کی وزارت ثقافت و فنون کے تعاون سے کیا تھا۔مشاعرے سے قبل محترمہ نثار عزیز بٹ اور نند کشور وکرم میں ایوارڈ تقسیم کئے گئے۔شیرٹن ہوٹل کے وسیع و عریض ہال میں کم وبیش ڈیڑھ سے دوہزار سامعین موجودتھے۔ایک بہت بڑے سٹیج پر دنیا بھر سے آئے ہوئے شعرا کو بٹھایا گیا تھا ۔رات دوبجے تک جاری رہنے والے اس مشاعرے کی صدارت گلزار دہلوی نے کی۔نظامت کے فرائض پروفیسر انور جلالپوری نے انجام دیئے۔ایک ایک مصرعے پر داد دینے والے سامعین نے مشاعرے کے آخر تک سماں باندھے رکھا۔بس وہ رات تو شاعری کے نام تھی ۔ایک سے ایک شعر اور ایک سے ایک نظم سننے کو ملی ۔ سامعین کی پیاس تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی ۔کہیں کوئی اکتاہٹ دیکھنے میں آئی نہ کسی کو پنڈال سے اٹھ کر جانے کی عجلت تھی۔شاعر دل کھول کر اپنا کلام سنا رہے تھے اور سامعین اسی فراخ دلی کے ساتھ سن رہے تھے۔اور مشاعرے کے بعد مبارک بادوں کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوا۔محمد عتیق، صبیح بخاری، داؤدملک، فرتاش سید، شوکت علی ناز، فرقان پراچہ سمیت انتظامی کمیٹی کے تمام ارکان نہال تھے۔ فروغ اردو کے لئے سرگرم مجلسِ فروغ اردو ادب نے ایک اور سنگِ میل عبور کر لیاتھا۔
Share This .. Share This

Post a Comment